20 جولائی ، 2023
یورپ، ایشیا اور شمالی امریکا کے متعدد ممالک آج کل شدید گرمی اور ہیٹ ویوز کے باعث کروڑوں افراد معمول سے زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کر رہے ہیں۔
امریکا کی ڈیتھ ویلی میں 16 جولائی کو درجہ حرارت 53.3 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا، جو دنیا کی تاریخ میں کسی جگہ ریکارڈ ہونے والا سب سے زیادہ درجہ حرارت تو نہیں تھا، مگر اس کے قریب ضرور تھا۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہیٹ ویوز کی شدت اور دورانیے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک سوال اکثر افراد کرتے ہیں کہ آخر کتنا درجہ حرارت روزمرہ کی سرگرمیوں کے لیے بہت زیادہ تصور کیا جا سکتا ہے۔
اس کا جواب تھرما میٹر میں درجہ حرارت کے ہندسوں کے ساتھ ساتھ فضا میں موجود نمی کی مقدار یا مرطوب موسم میں بھی چھپا ہے۔
امریکا کی پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک تحقیق میں اس سوال کا جواب دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ گرمی اور فضا میں نمی دونوں مل کر لوگوں کے لیے خطرہ زیادہ بڑھا دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ماضی میں مرطوب موسم کے جس درجہ حرارت کو انسانوں کے لیے محفوظ قرار دیا گیا وہ درست نہیں۔
2010 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ زیادہ نمی والے علاقے میں 35 ڈگری سینٹی گریڈ انسانی جسم کے تحفظ کی آخری حد ہے۔
اس سے زیادہ درجہ حرارت میں انسانی جسم پسینے کو بخارات بنا کر خود کو ٹھنڈا نہیں رکھ پاتا اور جسمانی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے جس سے ہیٹ اسٹروک کا خطرہ بڑھتا ہے۔
نئی تحقیق میں نوجوان اور صحت مند افراد پر کنٹرول ماحول والے چیمبر میں جانچا گیا کہ لوگ کتنی گرمی برداشت کر سکتے ہیں۔
تحقیق کے دوران دیکھا گیا کہ درجہ حرارت اور نمی کا امتزاج کب صحت مند افراد کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
اس مقصد کے لیے ہر فرد کو ایک ٹیلی میٹری گولی کھلائی گئی تاکہ ان کے جسمانی درجہ حرارت کو مسلسل مانیٹر کیا جا سکے۔
اس کے بعد انہیں ایک چیمبر میں لے جایا گیا، جہاں انہیں روزمرہ کی کم از کم سرگرمیوں جتنا چلایا گیا۔
سائنسدانوں کی جانب سے چیمبر کے درجہ حرارت یا نمی کو بتدریج بڑھا کر متعدد تجربات کرکے دیکھا گیا کہ کب لوگوں کا جسمانی درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔
واضح رہے کہ جب درجہ حرارت اور نمی کے امتزاج سے جسمانی درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے تو اسے آخری حد کہا جاتا ہے۔
اس حد سے قبل جسم اپنے درجہ حرارت کو طویل وقت تک مستحکم رکھ پاتا ہے، مگر حد عبور ہونے کے بعد وہ ایسا کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے اور مختلف مسائل کا خطرہ بڑھتا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ زیادہ نمی (50 فیصد سے زیادہ) اور درجہ حرارت کے امتزاج کے باعث انسانی جسم 35 کی بجائے 31 ڈگری سینٹی گریڈ پر ہی خود کو ٹھنڈا رکھنے میں ناکام ہونے لگتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ خشک اور گرم موسم میں ہمارا جسم پسینے کو بخارات بناکر خود کو ٹھنڈا رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے، مگر انسان ایک مخصوص حد تک ہی پسینہ خارج کر سکتے ہیں جس کے بعد جسم زیادہ حرارت اکٹھی کرنے لگتا ہے۔
مگر اس طرح کے موسم میں جسم 40 ڈگری سینٹی گریڈ پر بھی روزمرہ کے کام احتیاط کے ساتھ آرام سے کر لیتا ہے۔
اس کے مقابلے میں درجہ حرارت کم ہو مگر نمی زیادہ ہو تو اس سے دل اور دیگر جسمانی نظاموں پر دباؤ بڑھتا ہے۔
اس طرح کے موسم میں 30 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر درجہ حرارت ہونے پر جسم کے لیے اپنا درجہ حرارت کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اب محققین کی جانب سے بوڑھے افراد پر تحقیق کی جائے گی کیونکہ عمر بڑھنے سے انسانی جسم کی گرمی برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ زیادہ گرم موسم کے دوران مناسب مقدار میں پانی پینا اور ٹھنڈی جگہوں پر رہنا ضروری ہے۔