19 جولائی ، 2023
چینی کا استعمال موجودہ عہد میں عام ہے مگر غذا میں اس کی بہت زیادہ مقدار کی موجودگی مختلف امراض کا خطرہ بڑھاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرین طب کی جانب سے چینی کے کم استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
مگر اس مشورے کا مطلب یہ نہیں کہ ہر طرح کی مٹھاس کو غذا سے نکال دیں کیونکہ ایسا ہونا ناممکن ہے اور صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہے۔
ہمارے جسم کو توانائی کے لیے روزانہ کچھ مقدار میں شکر کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ قدرتی غذاؤں جیسے پھلوں، سبزیوں، دودھ اور اناج وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے۔
ماہرین بنیادی طور پر مٹھاس کی مخصوص اقسام سے دوری کا مشورہ دیتے ہیں جیسے ریفائن اور پراسیس شکر المعروف چینی، جو سوڈا، آئس کریم اور ایسی ہی متعدد اشیا میں شامل ہوتی ہے۔
اس طرح کی مٹھاس سے دوری کے متعدد فوائد ہوتے ہیں کیونکہ چینی میں موجود اضافی کیلوریز سے جسم یا صحت کو کوئی اضافی غذائیت نہیں ملتی بلکہ ان کے لیے empty calories کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، کیونکہ ان سے جسمانی وزن میں اضافے اور دیگر طبی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
بہت زیادہ کیلوریز کا استعمال (چاہے کسی بھی ذریعے سے جسم کا حصہ بنیں) سے جسمانی وزن میں اضافہ ہوتا ہے، مگر غذا میں چینی کے زیادہ استعمال کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ دن بھر میں ضرورت سے زیادہ کیلوریز جسم کا حصہ بنا رہے ہیں۔
اس کے نتیجے میں جسمانی وزن میں اضافے کے ساتھ ساتھ پیٹ اور کمر کے اردگرد چربی بھی بڑھتی ہے جو صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔
اگر جسمانی وزن زیادہ ہوگا تو ممکنہ طور پر بلڈ کولیسٹرول کی سطح بھی زیادہ ہوگی جس کی ایک قسم خون میں موجود triglycerides چکنائی ہوتی ہے۔
چینی کا استعمال کم کرنے سے جسمانی وزن میں کمی آتی ہے جس سے کولیسٹرول کی سطح بہتر ہوتی ہے۔
خون میں چکنائی کی زیادہ مقدار سے امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔
چینی کا استعمال کم کرنے سے چکنائی کی سطح گھٹ جاتی ہے اور جسمانی وزن میں اضافہ بھی رک جاتا ہے جس سے امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
چینی منہ میں پائے جانے والے بیکٹریا کی افزائش نسل کے لیے بنیادی غذائی ذریعہ ثابت ہوتی ہے جس سے دانتوں کی کمزوری کا خطرہ بڑھتا ہے۔
چینی کا استعمال کم کرنے خاص طور پر میٹھے مشروبات سے دوری کے نتیجے میں دانتوں کی صحت کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔
جو لوگ زیادہ مقدار میں چینی کا استعمال کرتے ہیں، ان میں ذیابیطس، امراض قلب، ہائی بلڈ پریشر، جگر کے امراض اور دیگر سنگین بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
تو چینی کا استعمال کم کرکے ان امراض کا خطرہ بھی نمایاں حد تک کم کرنا ممکن ہے۔
زیادہ چینی والی غذاﺅں کے استعمال سے انسولین کی سطح بڑھتی ہے، جو کچھ دیر کے لیے جسمانی توانائی بڑھاتی ہے مگر پھر اچانک بہت تیزی سے کم بھی ہوجاتی ہے۔
یعنی میٹھے انرجی ڈرنکس وغیرہ سے کچھ دیر کے لیے تو توانائی بڑھ سکتی ہے مگر پھر اچانک ختم بھی ہو جاتی ہے جس سے تھکاوٹ، کمزوری اور غنودگی جیسے احساسات کا سامنا ہوتا ہے۔
چینی کا زیادہ استعمال معدے کی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ اس میں فائبر کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
فائبر وہ غذائی جز ہے جو معدے میں موجود صحت کے لیے فائدہ مند اربوں بیکٹریا کے لیے ایندھن کا کام کرتا ہے۔
اس کے مقابلے میں بہت زیادہ چینی کا استعمال نقصان دہ بیکٹریا کی مقدار بڑھاتا ہے جبکہ ورم، پیٹ پھولنے اور قبض جیسے مسائل کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔
میٹھی غذائیں نیند میں مدد دینے والے ہارمونز پر اثرانداز ہوتی ہیں، جس سے نیند کا معیار ناقص ہوتا ہے اور مختلف امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔
نیند کی کمی میٹھی اشیا کھانے کی خواہش کو مزید بڑھا دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں یہ ایک چکر جیسا ہوجاتا ہے زیادہ میٹھا اور خراب نیند۔
زیادہ مقدار میں چینی کا استعمال جسم کے اندر ورم کو بڑھاتا ہے جس کے باعث جِلد پر کیل مہاسے زیادہ نظر آنے لگتے ہیں۔
میٹھے کے زیادہ استعمال سے انسولین کی سطح بھی بڑھتی ہے جس کے نتیجے میں زیادہ چکنائی والی رطوبت بنتی ہے اور مسام بند ہو جاتے ہیں جبکہ کیل مہاسوں کا باعث بننے والے بیکٹریا کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
اسی طرح چینی کے زیادہ استعمال سے جسم کے اندر glycation نامی عمل متحرک ہوتا ہے۔
اس عمل کے دوران شوگر مالیکیول جِلد کے لچکدار فائبرز اور کولیگن سے منسلک ہو جاتے ہیں اور انہیں کمزور بنادیتے ہیں۔
اس سے جھریاں نمودار ہو جاتی ہیں یا یوں کہہ لیں کہ قبل از وقت بڑھاپا طاری ہو جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق متوازن غذا کی 10 فیصد سے کم کیلوریز چینی سے حاصل ہونی چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق روزانہ زیادہ سے زیادہ 5 سے 10 چائے کے چمچ چینی کا استعمال کرنا چاہیے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔