20 اگست ، 2023
الیکشن واچ ڈوگ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کے لیئے اپنی تجاویز دے دی ہیں۔
فافن کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق الیکشن کمیشن تمام انتخابی حلقوں کی مساوی آبادی پر تشکیل یقینی بنائے، حلقوں کے درمیان عدم مساوات آرٹیکل 25 کے خلاف ہے جس کے مطابق تمام شہری برابر درجہ رکھتے ہیں۔
فافن کے مطابق گزشتہ حلقہ بندی میں ضلعی انتظامی حدود کی پاسداری کی شرف کے باعث قومی اسمبلی کے 82 حلقے ایسے تھے جن میں آبادی کا فرق 10 فیصد سے زیادہ تھا، الیکشن کمیشن حلقہ بندی کمیٹیوں کو پابند بنائے کہ وہ حلقوں کی آبادی کا فرق 10 فیصد سے زائد ہونے کی وجوہات تحریر کریں۔
فافن کے مطابق اندازہ ہے کہ اگر ماضی کی طرح حالیہ حلقہ بندیوں میں بھی ضلعی حدود کی پاسداری کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی تو خیبرپختونخوا کے دو تہائی اضلاع، سندھ کے نصف اضلاع ، پنجاب کے ایک تہائی اضلاع اور بلوچستان کے تمام اضلاع میں قومی اسمبلی کے حلقوں کی آبادی کے درمیان 10 فیصد سے زیادہ کا فرق پائے جانے کا امکان ہے تاہم الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن دفعہ (1) 20 کے اس اصول سے بچ سکتا ہے۔
فافن نے تجویز دی کہ الیکشن کمیشن دفعہ (3) 20 میں شامل کردہ نئی شرط پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کے لیے الیکشن رولز 2017 میں ضروری ترامیم کرے۔ اس ضمن میں رولز کے قاعدہ 10 کے ذیلی قواعد 4 اور 5 میں ترامیم کی جانی چاہیے تاکہ حلقوں کے درمیان آبادی کے فرق کو ضلعی سطح تک محدود کرنے کی بجائے صوبے کی سطح پر دیکھا جائے۔
فافن کے مطابق حلقہ بندیوں کی ابتدائی تجاویز پر شہریوں کی جانب سے اعتراضات دائر کرنے اور ان کی سماعت کے عمل کو سہل بنانے کیلئے الیکشن رولز 2017 کے قاعدہ 12 اور 13 میں ضروری ترامیم کی جائیں اور شہریوں کی جانب سے اعتراضات کی باقاعدہ سماعت سے پہلے ان کی ابتدائی جانچ پڑتال کر لے تاکہ صرف جامع اور مدلل اعتراضات ہی باقاعدہ سماعت کے مرحلے تک پہنچیں۔
فافن نے تجویز پیش کی کہ الیکشن کمیشن کو اعتراضات پر سماعتیں وفاقی دارالحکومت کے بجائے صوبوں میں منعقد کرنی چاہیے تاکہ اعتراض کنندگان طویل سفر اور اخراجات سے بچ سکیں۔
فافن کا کہنا تھا کہ حلقہ بندی کے عمل میں بہتری انتخابات کے عمل کو بہتر بنانے اور منتخب اداروں میں تمام جغرافیائی، لسانی، نسلی اور مذہبی تنوع کی نمائندگی کو یقینی بنانے کیلئے اہم ہے، حلقہ بندی شہریوں کے درمیان سیاسی طاقت کی تقسیم کا ایک مرکزی عمل ہے لہٰذا اسے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف ہونا چاہیے۔