Time 27 اگست ، 2023
صحت و سائنس

وہ عام عادت جس کو بدل کر آپ فالج اور امراض قلب سے خود کو بچا سکتے ہیں

یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو

اگر آپ خود کو امراض قلب اور فالج سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو اپنی غذا میں نمک کا استعمال کم کر دیں۔

یہ بات اس حوالے سے ہونے والی اب تک کی سب سے بڑی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

اس سے قبل یہ معلوم ہوچکا ہے کہ غذا میں اوپر سے نمک کی اضافی مقدار چھڑکنے سے دل کی شریانوں کے امراض اور قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھتا ہے۔

جنوبی کوریا کے Kyungpook نیشنل یونیورسٹی ہاسپٹل کی اس نئی تحقیق میں دیکھا گیا تھا کہ غذا میں نمک کی مقدار کم کرنے یا اس کا استعمال نہ کرنے سے دل کی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر غذا میں اضافی نمک کو شامل نہ کیا جائے تو دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کے عارضے atrial fibrillation (اے ایف) سے متاثر ہونے کا خطرہ 18 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

اے ایف کے دوران دل کی دھڑکن کی رفتار بہت تیز ہو جاتی ہے جس سے سر چکرانے، سانس لینے میں مشکلات اور تھکاوٹ جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

اے ایف کے شکار مریضوں میں فالج کا خطرہ دیگر افراد کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ غذا میں نمک کی مقدار کم کرنے سے اے ایف سے متاثر ہونے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔

اس تحقیق کے لیے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 40 سے 70 سال کی عمر کے 5 لاکھ سے زائد افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔

یہ سب افراد اے ایف، امراض قلب یا فالج جیسے امراض سے محفوظ تھے اور ہر ایک سے معلوم کیا گیا کہ وہ غذا پر الگ سے نمک چھڑکتے ہیں یا نہیں۔

اس کے بعد ان افراد کی صحت کا جائزہ 11 سال تک لیا گیا تاکہ اضافی نمک سے گریز یا استعمال سے صحت پر مرتب اثرات معلوم ہوسکیں۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ غذا پر اوپر سے نمک نہ چھڑکنے والے افراد میں اے ایف سے متاثر ہونے کا خطرہ 18 فیصد تک گھٹ جاتا ہے جبکہ کبھی کبھار نمک چھڑکنے والوں میں اس بیماری کا امکان 15 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ اگر اوپر سے نمک چھڑکنے کے عادی افراد اس عادت کو بدل لیں تو بھی اے ایف سے متاثر ہونے کا خطرہ 12 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج یورپین سوسائٹی آف کارڈیالوجی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پیش کیے گئے۔

مزید خبریں :