آپ کو ہارٹ اٹیک اور فالج سے بچانے میں مددگار بہترین پھل

امراض قلب دنیا بھر میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں / فائل فوٹو
امراض قلب دنیا بھر میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں / فائل فوٹو

دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات دل کی شریانوں سے جڑے امراض جیسے ہارٹ اٹیک یا فالج کے نتیجے میں ہوتی ہے۔

دل کی صحت سے جڑے مسائل بشمول ہارٹ اٹیک، دل کی دھڑکن کی رفتار میں بے ترتیبی یا اس عضو کے مختلف حصوں کو پہنچنے والے ہر قسم کے نقصان کے لیے امراض قلب کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

ہائی بلڈ پریشر، ہائی کولیسٹرول اور تمباکو نوشی کو دل کے متعدد امراض کا خطرہ بڑھانے والے عناصر تصور کیا جاتا ہے مگر طرز زندگی کی تبدیلیاں بھی اس حوالے سے اہم ہوتی ہیں۔

ایسا تصور کیا جاتا ہے کہ امراض قلب کا سامنا بڑھاپے یا کم از کم درمیانی عمر میں ہوتا ہے۔

مگر حالیہ برسوں میں جوان افراد میں دل کے امراض کی شرح میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ چند عام پھلوں کا استعمال عادت بنانے سے امراض قلب بشمول ہارٹ اٹیک اور فالج سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔

کیلے

کیلوں میں پوٹاشیم نامی منرل موجود ہوتا ہے اور یہ دل کی صحت کے لیے بہت اہم غذائی جز ہے۔

پوٹاشیم ہمارے جسم میں بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے جس سے ہائی بلڈ پریشر سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

ہائی بلڈ پریشر کے شکار افراد میں ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

پوٹاشیم سے خون کی شریانیں کشادہ ہوتی ہیں جبکہ ہڈیوں اور مسلز کو مضبوط بنانے میں بھی مدد ملتی ہے۔

بیریز

بلیو بیری، اسٹرا بیری اور دیگر بیریز کے استعمال سے امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بلیو بیری اور اسٹرا بیری کھانے سے ہارٹ اٹیک کا خطرہ 32 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

ان پھلوں میں نباتاتی مرکبات اور اینٹی آکسائیڈنٹس جیسے فلیونوئڈز موجود ہوتے ہیں جن سے بلڈ پریشر کی سطح کم ہوتی ہے جبکہ خون کی شریانیں کشادہ ہوتی ہیں۔

انار

انار میں بھی متعدد اینٹی آکسائیڈنٹس موجود ہوتے ہیں جن سے شریانوں کی صحت بہتر ہوتی ہے۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ انار کھانے کی عادت سے امراض قلب سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

سیب

سیب وہ پھل ہے جس کو کھانے سے بلڈ کولیسٹرول کی سطح میں کمی آتی ہے جبکہ اس میں موجود پری بائیوٹیک خصوصیات دل کی صحت کو بہتر بناتی ہیں۔

پری بائیو ٹیکس کو معدے میں صحت کے لیے ایسے مفید بیکٹریا کی غذا سمجھا جاتا ہے جو دل کی شریانوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ درمیانی عمر کے افراد اگر روزانہ ایک سیب کھانا عادت بنالیں تو شریانیں تنگ ہونے کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہو جاتا ہے۔

ناشپاتی

ناشپاتی میں فائبر کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جو بلڈ کولیسٹرول کو کنٹرول کرنے میں مد دفراہم کرتا ہے۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو افراد پھلوں کو زیادہ کھانے کے عادی ہوتے ہیں ان میں دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہو جاتا ہے۔

مالٹے

مالٹوں میں کولیسٹرول سے مقابلہ کرنے والی فائبر کی ایک قسم pectin موجود ہوتی ہے جبکہ یہ پھل پوٹاشیم سے بھی لیس ہوتا ہے، جس سے بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ روزانہ 2 کپ اورنج جوس پینے سے دل کی شریانوں کی صحت بہتر ہوتی ہے جبکہ بلڈ پریشر کی سطح گھٹ جاتی ہے۔

چیری

چیری اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور پھل ہے جو دل کی شریانوں کی صحت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

اس پھل کو کھانے سے امراض قلب سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔

آڑو

آڑو دل کی صحت کے لیے بہترین پھل ہے۔

جانوروں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا ہے کہ آڑو کے ایکسٹریکٹ سے کولیسٹرول اور ہائی بلڈ پریشر کو کم رکھنے میں مدد ملتی ہے، جبکہ اس میں موجود پوٹاشیم بھی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے، جس سے ہارٹ اٹیک اور فالج جیسے امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

خوبانی

اس پھل میں موجود پوٹاشیم بلڈپریشر کی سطح کم کرتا ہے جس سے ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ خوبانی میں موجود فائبر کولیسٹرول کی سطح میں کمی لاتا ہے جس سے بھی امراض قلب سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

آم

آموں میں موجود میگنیشم اور پوٹاشیم سے خون کی روانی کا نظام مستحکم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

ان اجزا سے خون کی شریانیں کشادہ ہوتی ہیں اور بلڈ پریشر کی سطح گھٹ جاتی ہے۔

اس پھل میں موجود اینٹی آکسائیڈنٹس بھی دل کی صحت کے لیے مفید ہوتے ہیں جو کولیسٹرول اور چکنائی کی سطح میں کمی لاتے ہیں۔

آلو بخارے

اس پھل کو کھانا معمول بنانے سے دل کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

آلو بخاروں کھانے سے ہائی بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی سطح بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی سطح میں ممکنہ کمی آتی ہے اور یہ دونوں امراض قلب کا خطرہ بڑھانے والے عناصر ہیں۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :