خون چوسنے کیلئے مشہور 'ڈریکولا' اصل میں سبزی خور تھا

ایک تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا / فوٹو بشکریہ ڈیلی میل
ایک تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا / فوٹو بشکریہ ڈیلی میل

15 ویں صدی میں یورپی ملک رومانیہ میں واقع علاقے ٹرانسلوینیا کا حکمران ولاد سوم وہ شخص ہے جس سے متاثر ہوکر ڈریکولا کا کردار تیار کیا گیا۔

برطانوی ادیب بریم اسٹوکر نے ڈریکولا ناول تحریر کیا تھا جس میں ڈریکولا کو انسانی خون پینے والا ویمپائر دکھایا گیا تھا اور ولاد سوم کو وہ کردار دکھایا تھا۔

مگر اب ایک نئی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ولاد سوم کو گوشت کھانا پسند نہیں تھا یا یوں کہہ لیں کہ وہ سبزی خور تھا۔

تاریخ دانوں کے مطابق ولاد سوم نے اپنے دور حکومت میں 80 ہزار سے زائد افراد کو قتل کیا تھا اور ان میں سے زیادہ تر کو میخیں ٹھونک کر مارا گیا تھا۔

اٹلی کی Catania یونیورسٹی کی تحقیق میں ولاد سوم کی جانب سے تحریر کردہ خطوط کا کیمیائی تجزیہ کرکے اس کی صحت اور رہائش کے ماحول کی تفصیلات جمع کی گئیں۔

جرنل Analytical Chemistry میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ان خطوط کی سطح پر پروٹین مالیکیولز کے ہزاروں ذرات ملے ہیں۔

محققین نے پہلے 500 ذرات کو اکٹھا کیا اور پھر مزید 100 ذرات کو جمع کیا جو ان کے خیال میں زیادہ پرانے تھے۔

ان میں سے 16 پروٹین مالیکیولز کے ذرات انسانی ساختہ تھے اور ممکنہ طور پر ولاد سوم سے خطوط میں پہنچے۔

ان پروٹینز سے عندیہ ملتا ہے کہ ولاد سوم کو نظام تنفس کے مسائل کا سامنا تھا، خاص طور پر hemolacria عارضے کا، جس کے شکار افراد خون کے آنسو بہاتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ ولاد سوم hemolacria سے متاثر تھا اور اس کی آنکھوں سے ایسے آنسو نکلتے تھے جن میں خون ملا ہوتا تھا۔

محققین نے دریافت کیا کہ خطوط پر موجود مالیکیولز میں حیوانی غذائی پروٹینز موجود نہیں تھے اور جو غذائی ذرات دریافت کیے گئے وہ نباتاتی تھے۔

محققین کے مطابق ان شواہدسے عندیہ ملتا ہے کہ ڈریکولا سے منسوب کی جانے والی یہ شخصیت درحقیقت سبزیاں کھانا پسند کرتی تھی۔

اس عہد میں یورپ کا موسم بہت سرد ہوتا تھا اور غذائی وسائل محدود ہوتے تھے۔

محققین نے بتایا کہ ڈریکولا ممکنہ طور پر خراب صحت یا محدود غذائی وسائل کے باعث سبزی خور تھا۔

مزید خبریں :