15 ستمبر ، 2023
اس وقت انسانی دماغ میں کیا ہوتا ہے جب ایک فرد جو لگ بھگ مر چکا تھا، اسے زندگی کی جانب واپس لایا جاتا ہے؟
اس سوال کا جواب امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں دیا گیا۔
نیویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول آف میڈیسن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ حرکت قلب رک جانے کے بعد Cardiopulmonary resuscitation (سی پی آر) کے ذریعے زندگی کی جانب واپس لائے جانے والے افراد مختلف تجربات بیان کرتے ہیں۔
اس تحقیق میں بلغاریہ، برطانیہ اور امریکا کے 25 اسپتالوں کے تربیت یافتہ طبی ماہرین کو شامل کیا گیا اور ان مریضوں کا جائزہ لیا گیا جن کو 'تکنیکی طور پر مردہ' قرار دیا گیا تھا اور سی پی آر کے ذریعے انہیں بچانے کی کوشش کی گئی۔
تحقیق کے دوران جب بھی ڈاکٹر حرکت قلب تھم جانے کے بعد مریض کو سی پی آر کے ذریعے زندگی کی جانب واپس لانے کی کوشش کرتے تو تحقیقی ٹیم کی جانب سے مریض کے سر پر آکسیجن اور برقی تحرک کی جانچ کرنے والی ڈیوائسز منسلک کر دی جاتیں۔
عام طور پر سی پی آر کی کوشش 23 سے 26 منٹ تک جاری رہتی ہے مگر کچھ ڈاکٹر ایک گھنٹے تک کوشش کرتے رہتے ہیں۔
مجموعی طور پر 567 افراد میں سے 53 افراد کو بچایا گیا جن میں سے 28 نے محققین سے اس بارے میں بات کی۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ موت کے منہ سے زندگی کی جانب آنے والے 40 فیصد سے زیادہ افراد کا شعور کسی حد تک کام کر رہا تھا، یعنی بے ہوش ہونے کے باوجود انہیں علم تھا کہ ان کے اردگرد کچھ ہو رہا ہے جبکہ صرف 6 افراد نے موت کے وقت ہونے والے تجربات کو رپورٹ کیا۔
مریضوں کے دماغ میں نصب ڈیوائسز سے معلوم ہوا کہ جب انہیں زندگی کی جانب واپس لانے کی کوشش کی جا رہی تھی تو خیالات اور یادداشت سے متعلق دماغی سرگرمیاں متحرک تھیں۔
محققین نے بتایا کہ ہم نے دماغی برقی سرگرمیوں کو ابھرتے دیکھا، یہ سرگرمیاں ویسی ہی تھیں جو بات کرنے یا گہرائی میں سوچنے کے دوران نظر آتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ ایسے مریضوں کی جانب سے مخصوص خیالات کو تسلسل سے دہرایا جاتا ہے جن کو 5 کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا۔
1۔ جسم سے الگ ہونے کا تصور جس کے ساتھ اکثر یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ ہم مر چکے ہیں۔
2۔ کسی منزل کی جانب بڑھنے کا تصور۔
3۔ زندگی کا بامقصد تجزیہ کرنا یا زندگی کے اہم واقعات آنکھوں کے سامنے ابھرنا۔
4۔ کسی ایسے مقام میں لوٹنے کا احساس ہونا جو گھر جیسا لگتا ہے۔
5۔ زندگی کی جانب واپس لوٹنے کا فیصلہ۔
تحقیق میں خواب جیسے تجربات جیسے دھنک، لفٹ اور لکڑی کے گھر دیکھنے کو بھی رپورٹ کیا گیا۔
محققین کے مطابق لوگوں کو ہونے والے تجربات خواب، وہم یا تصور کا دھوکا نہیں تھے بلکہ یہ حقیقی تجربات ہیں جن کا سامنا ہمیں مرتے وقت ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ سی پی آر کے عمل سے گزرنے والے افراد کا شعور ممکنہ طور پر کام کر رہا ہوتا ہے حالانکہ ڈاکٹروں کو اس کے آثار نظر نہیں آتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ موت کے قریب پہنچنے والے افراد اپنی زندگی، مقاصد اور اقدامات کا گہرائی میں جاکر بامقصد تجزیہ کرتے ہیں، یعنی ایک بار پھر خیالات میں اپنی زندگی دوبارہ جی لیتے ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل Resuscitation میں شائع ہوئے۔