29 ستمبر ، 2023
اگر کسی فرد کو کینسر سامنا ہو تو اس سے مکمل صحتیابی کا امکان تو ہوتا ہے مگر اس صورت میں اگر اس کی تشخیص جلد ہوجائے، جبکہ بیماری کا علاج بہت تکلیف دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
مگر اب تک طبی ماہرین یہ تعین نہیں کرسکے کہ کس فرد میں کینسر کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
تاہم کینسر کا خطرہ بڑھانے والے چند عناصر کی ضرور نشاندہی ہو چکی ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ کس فرد میں اس بیماری کا خطرہ زیادہ ہے۔
اس حوالے سے اب تک جو کچھ سائنسدان جان چکے ہیں وہ تفصیلات درج ذیل ہیں۔
عمر میں اضافہ کینسر کا خطرہ بڑھانے والا سب سے بڑا عنصر تصور کیا جاتا ہے۔
درحقیقت عمر کو کینسر کی متعدد اقسام سے منسلک کیا جاتا ہے اور کینسر کے لگ بھگ 50 فیصد مریضوں کی اوسط عمر 66 سال ہوتی ہے۔
مگر یہ واضح رہے کہ کینسر کا سامنا کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے مگر پھر بھی عمر میں اضافے کو اس بیماری کا خطرہ بڑھانے والا سب سے بڑا عنصر تصور کیا جاتا ہے۔
ورم ہمارے جسم کا ایک عام ردعمل ہوتا ہے جو مختلف ٹشوز کی انجری پر متحرک ہوتا ہے۔
ورم کے باعث ایسے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے جو متاثرہ ٹشوز تک پہنچتے ہیں اور خون کے سفید خلیات ایسا مواد تیار کرتے ہیں جو خلیات کی نشوونما اور تقسیم کا کام کرتے ہیں، جس سے انجری ٹھیک کرنے میں مدد ملتی ہے۔
جب متاثرہ حصہ ٹھیک ہو جاتا ہے تو یہ عمل تھم جاتا ہے۔
مگر دائمی ورم کے دوران یہ عمل ہر وقت جاری رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہو جاتا ہے جس سے ڈی این اے کو نقصان پہنچتا ہے اور کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔
متعدد تحقیقی رپورٹس میں غذائی عادات اور کینسر کے خطرے میں اضافے یا کمی کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس حوالے سے ابھی ٹھوس طور پر تو ثابت نہیں ہو سکا کہ کونسی غذا کینسر کا شکار یا اس سے تحفظ فراہم کر سکتی ہے مگر یہ ضرور معلوم ہوا ہے کہ الٹرا پراسیس غذاؤں کا زیادہ استعمال ممکنہ طور پر کینسر کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
الٹرا پراسیس غذاؤں میں ڈبل روٹی، فاسٹ فوڈز، مٹھائیاں، ٹافیاں، کیک، نمکین اشیا، بریک فاسٹ سیریلز، چکن اور فش نگٹس، انسٹنٹ نوڈلز، میٹھے مشروبات اور سوڈا وغیرہ شامل ہیں۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ موجودہ عہد میں ان غذاؤں کا استعمال بہت زیادہ ہو رہا ہے جبکہ سرخ گوشت کے زیادہ استعمال کو بھی کینسر سے منسلک کیا جاتا ہے۔
الکحل کے استعمال سے منہ، حلق، غذائی نالی، جگر اور بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اس کا جتنا زیادہ استعمال کیا جائے گا، کینسر سے متاثر ہونے کا خطرہ اتنا زیادہ بڑھ جائے گا۔
جسمانی وزن میں اضافے سے کینسر کی متعدد اقسام کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
کینسر کی ان اقسام میں بریسٹ، آنتوں، غذائی نالی، گردے، لبلبے اور دیگر قابل ذکر ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین کی وجہ سے جسمانی وزن کو صحت مند سطح پر رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تاکہ کینسر سمیت امراض قلب، ذیابیطس ٹائپ 2 اور ہائی بلڈ پریشر سے تحفظ مل سکے۔
ہارمونز بھی کینسر کا خطرہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ایسٹروجن وہ ہارمون ہے جس کی مقدار خواتین میں بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس کا توازن بگڑنے سے بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔
متعدد افراد کا مدافعتی نظام مختلف امراض کے باعث کمزور ہو جاتا ہے اور کمزور مدافعتی نظام کے باعث جسم کے لیے کینسر سے لڑنا مشکل ہوتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ کمزور مدافعتی نظام سے کینسر کی مختلف اقسام کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
مخصوص امراض سے بھی کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔
وائرسز، بیکٹریا اور پیرا سائیٹس کے باعث ہونے والی بیماریوں جیسے ہیپٹا ٹائٹس بی، ہیپاٹائٹس سی، ایچ آئی وی، ایچ پی وی، Epstein-Barr virus اور Helicobacter pylori وغیرہ سے کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔
سورج کی روشنی میں بہت زیادہ پھرنا بھی کینسر کا خطرہ بڑھاتا ہے، خاص طورپر جِلد کے کینسر کا۔
ہر عمر کے افراد میں یہ خطرہ موجود ہوتا ہے اور سورج کی روشنی میں کم وقت گزار کر اس خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے، خاص طورپر دوپہر سے سہ پہر کے دوران۔
تمباکو نوشی سے بھی کینسر سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
تمباکو میں موجود لگ بھگ 70 فیصد کیمیکلز کینسر کا باعث بن سکتے ہیں اور تمباکو نوشی سے صرف پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ ہی نہیں بڑھتا، بلکہ اس عادت کو کینسر کی 12 دیگر اقسام بشمول مثانے، معدے، منہ، گلے اور گردوں کے کینسر سے بھی منسلک کیا جاتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔