23 نومبر ، 2023
ہم سب کے ساتھ ایسا ہوتا ہے یعنی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پیٹ بہت زیادہ بھرنے سے پھول گیا ہے۔
کھانے کے بعد پیٹ کا پھول جانا عموماً کسی تشویش کا باعث نہیں ہوتا مگر یہ تجربہ اکثر افراد کے لیے پریشان کن ہوتا ہے۔
پیٹ پھولنے کا مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب معدے یا آنتوں میں گیس کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور عموماً متاثرہ فرد کچھ دیر میں خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے۔
مگر اچھی بات یہ ہے کہ چند عام غذاؤں کے استعمال سے پیٹ پھولنے کے مسئلے سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
کیلوں میں پوٹاشیم نامی غذائی جز موجود ہوتا ہے۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کھانے سے قبل ایک کیلے کو کھانے سے پیٹ پھولنے کے مسئلے کا سامنا کم ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق پوٹاشیم اور دیگر غذائی اجزا معدے میں موجود بیکٹریا کو اضافی گیس بنانے سے روکتے ہیں۔
ہلدی میں موجود مرکبات پیٹ پھولنے کے مسئلے سے بچانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ ہلدی کے استعمال سے نظام ہاضمہ بہتر ہوتا ہے اور پیٹ پھولنے سے متاثر ہونے پر ریلیف ملتا ہے۔
پودینے کی چائے سے بھی پیٹ پھولنے اور گیس کے مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔
پودینے سے نظام ہاضمہ کے مسلز کو سکون ملتا ہے اور اس طرح پیٹ پھولنے کے مسئلے سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
پیٹ پھولنے یا اضافی گیس سے پریشان رہتے ہیں تو ادرک کے استعمال سے ریلیف مل سکتا ہے۔
ادرک سے نظام ہاضمہ کو فائدہ ہوتا ہے اور معدہ جلد خالی ہوتا ہے جس سے پیٹ پھولنے کے مسئلے کا سامنا نہیں ہوتا۔
سونف سے غذائی نالی کو سکون ملتا ہے اور اس کے نتیجے میں اضافی گیس زیادہ آسانی سے معدے سے گزر جاتی ہے۔
اس طرح پیٹ پھولنے کے مسئلے کا سامنا نہیں ہوتا۔
ٹماٹروں میں موجود لائیکوپین نامی اینٹی آکسائیڈنٹ سے ورم کی روک تھام ہوتی ہے۔
اسی طرح ٹماٹروں میں پوٹاشیم کی مقدار بھی بہت زیادہ ہوتی ہے جس سے پیٹ پھولنے کے مسئلے سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
لونگ کا تیل بھی پیٹ پھولنے اور گیس جیسے مسائل پر قابو پانے کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
اسے استعمال کرنے کے لیے ایک گلاس پانی میں تیل کے 2 سے 5 قطرے شامل کرکے کھانے کے بعد پی لیں۔
سیب کے سرکے کو پینے سے گیس اور پیٹ پھولنے کا باعث بننے والے جراثیموں سے لڑنے میں مدد ملتی ہے۔
پانی یا چائے میں ایک کھانے کا چمچ سیب کا سرکہ مکس کریں اور اس مشروب کو ہر بار کھانے سے قبل پی لیں۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔