16 نومبر ، 2023
ادرک بہت عام استعمال ہونے والی چیز ہے جو پاکستان میں لگ بھگ ہر کھانے کا حصہ ہوتی ہے۔
مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ صحت کے لیے کتنی بہترین چیز ہے؟
جی ہاں واقعی ادرک سے آپ مختلف امراض سے خود کو بچا سکتے ہیں اور یہ سستی چیز علاج کے ہزاروں روپے کی بچت کر سکتی ہے۔
اس کے جسم پر مرتب ہونے والے حیرت انگیز اثرات درج ذیل ہیں۔
ادرک میں موجود کیمیائی مرکبات جسم کو جراثیموں سے لڑنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
یہ کیمیائی مرکبات ای کولی اور shigella جیسے خطرناک بیکٹریا کی نشوونما روکتے ہیں۔
یہ دونوں بیکٹریا آنتوں کے انفیکشنز کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔
ادرک کی جراثیم کش خصوصیات منہ کی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔
ادرک میں موجود ایک جز gingerols منہ میں موجود بیکٹریا کی نشوونما روکتا ہے۔
یہ بیکٹریا مسوڑوں کے انفیکشن سمیت مختلف امراض کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔
ادرک سے متلی کے مسئلے سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
ادرک کے استعمال سے آنتوں میں موجود گیس کا اخراج ہوتا ہے جبکہ ادویات کے استعمال یا بیماری کے باعث ہونے والی متلی کی روک تھام ہوتی ہے۔
ادرک سے مسلز کی تکلیف تو ختم نہیں ہوتی مگر اس کے استعمال سے وقت کے ساتھ سوجن گھٹ جاتی ہے۔
ورم کش خصوصیات کے باعث ادرک کا استعمال جوڑوں کی تکلیف میں بھی کمی لاتا ہے۔
ادرک کو کھانے یا اس کی چائے پینے سے جوڑوں کی تکلیف اور ورم میں کمی آسکتی ہے۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ادرک سے جسم کو انسولین کا بہتر استعمال کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ادرک کا روزانہ استعمال صحت کے لیے نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح میں کمی لاتا ہے۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 3 ماہ تک روزانہ 5 گرام ادرک کا استعمال کولیسٹرول کی سطح میں نمایاں کمی لاتا ہے۔
ادرک میں متعدد اینٹی آکسائیڈنٹس اور کیمیائی مرکبات ہوتے ہیں جن سے عمر بڑھنے کے ساتھ ڈی این اے کو پہنچنے والے نقصان کی روک تھام ہوتی ہے۔
ڈی این اے کی صحت بہتر ہونے سے دائمی امراض جیسے ہائی بلڈ پریشر، امراض قلب اور پھیپھڑوں کے امراض سے لڑنے میں مدد ملتی ہے۔
اگر بدہضمی یا پیٹ میں اضافی گیس جیسے مسائل سے پریشان رہتے ہیں تو ادرک سے ریلیف ملتا ہے۔
کھانے سے قبل ادرک کے استعمال سے نظام ہاضمہ کو خوراک جلد ہضم کرنے میں مدد ملتی ہے اور مختلف مسائل سے تحفظ ملتا ہے۔
کچھ تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ ادرک میں موجود مرکبات سے مختلف اقسام کے کیسنر جیسے جگر، جِلد، بریسٹ اور مثانے کے کینسر کی رسولی کی نشوونما سست ہو جاتی ہے۔
تاہم طبی ماہرین ان نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔