04 جنوری ، 2024
نیند کی کمی کو متعدد امراض کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔
اب یہ دریافت ہوا ہے کہ درمیانی عمر میں نیند کی کمی بڑھاپے میں دماغی تنزلی بشمول یادداشت اور سوچنے کے مسائل کا باعث بنتی ہے۔
امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ 30 یا 40 سال کی عمر میں نیند کے مسائل کا سامنا کرنے سے دماغی امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اس تحقیق میں 526 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔
تحقیق کے آغاز پر ان افراد کی اوسط عمر 40 سال تھی اور پھر ان کی صحت کا جائزہ 11 سال تک لیا گیا۔
اس عرصے میں ان افراد کی نیند کے دورانیے اور معیار کو بھی دیکھا گیا۔
ان کی نیند کے دورانیے کا اوسط جاننے کے لیے کلائی پر ٹریکر پہنچائے گئے اور دریافت ہوا کہ ان افراد کی نیند کا اوسط دورانیہ 6 گھنٹے تھا۔
ان افراد سے سونے اور جاگنے کے اوقات بھی معلوم کیے گئے۔
239 افراد (46 فیصد) نے ناقص نیند کو رپورٹ کیا۔
ان افراد کی یادداشت اور سوچنے کی صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے مختلف ٹیسٹ مکمل کرائے گئے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن 176 افراد کی نیند سب سے زیادہ متاثر ہوئی تھی، ان میں سے 44 نے 10 سال بعد ٹیسٹوں میں ناقص دماغی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
عمر، جنس، تعلیم اور دیگر عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے دریافت کیا گیا کہ ناقص نیند کے شکار افراد میں دماغی تنزلی کا خطرہ دوگنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ الزائمر امراض کے اشارے کئی دہائیوں قبل ہی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ درمیانی عمر میں نیند اور دماغی صحت کے درمیان تعلق نظر آتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ درمیانی عمر میں نیند کا معیار دماغی صحت پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تعلق کی جانچ پڑتال کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے اور یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری زندگی کا وہ کونسا عہد ہوتا ہے جب نیند مضبوطی سے دماغ سے جڑ جاتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل امریکن اکیڈی آف نیورولوجی میں شائع ہوئے۔