05 فروری ، 2024
عام انتخابات 2024 کے لیے ملک بھر میں الیکشن کا میدان سج چکا ہے، بڑے بڑے پہلوانوں نے فتح کے لیےکمرکس لی ہے، چاروں صوبوں سے بڑے انتخابی معرکوں میں سابق اراکین اسمبلی، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ،گورنر اور پارٹی سربراہان اپنی جیت کے لیے سردھڑ کی بازی لگانےکو تیار ہیں۔
نواز شریف کے آبائی حلقہ این اے 130 لاہور سے کانٹے دار مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے، یہ نشست مسلم لیگ ن کی محفوظ نشست تصور کی جاتی ہے، یہاں سے ن لیگ کے میاں محمد نواز شریف، تحریک انصاف کی حمایت سے ڈاکٹر یاسمین راشد، اقبال احمد خان پیپلز پارٹی سے، جماعت اسلامی سے خلیق احمد بٹ اور تحریک لبیک سے خرم ریاض میدان میں اتر رہے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف صوبائی وزیرخزانہ، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔
تحریک انصاف کا ووٹ بینک یہاں پر بڑی تعداد میں موجود ہے تاہم 2018 میں وہ یہاں سے کامیاب نہیں ہوسکی۔
یادر ہےکہ میاں محمد نواز شریف این اے 15 مانسہرہ سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں، ان کے مدمقابل مضبوط امیدواروں میں تجربہ کار سیاست دان پی ٹی آئی کے شہزادہ گستاسپ خان اور پیپلز پارٹی کے زرگل خان ہیں۔
بیرسٹر گوہر خان این اے 10 بونیر سے الیکشن کا حصہ ہیں، ان کے مدمقابل ن لیگ کے سالار خان، تحریک انصاف پارلیمنٹیر ینز کے شیراکبرخان ، جماعت اسلامی کے بخت جہان خان، اے این پی سے عبدالرؤف اور پیپلز پارٹی سے یوسف علی میدان میں ہیں۔
چیئر مین تحریک انصاف گوہر علی خان کو حال ہی میں چیئر مین نامزد کیا گیا تھا، وہ تحر یک انصاف کے چیف الیکشن کمشنر رہے، ماضی میں ان کی سیاسی وابستگی پیپلز پارٹی سے تھی اور جولائی 2022 میں انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی، انہوں نے 2008 کے الیکشن میں پی پی پی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا، وہ وکلا تحریک کا بھی حصہ رہے۔
ان کے مدمقابل شیر اکبر خان 2018 میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے تھے جس کے بعد اب پرویز خٹک کی پارٹی پی ٹی آئی پی سے میدان میں ہیں، اب دیکھنا یہ ہےکہ جیت کس کی ہوتی ہے۔
شہید بے نظیر آباد کی نشست این اے 207 سے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری الیکشن کا حصہ ہیں۔
پی ٹی آئی کی حمایت سے سردار شیرمحمد رند بلوچ اور تحریک لبیک سے سعید احمد میدان میں ہیں، اس نشست کا شمار پیپلز پارٹی کی محفوظ ترین نشستوں میں ہوتا ہے، 2018 میں آصف علی زرداری نے یہاں سے ایک لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرکے جی ڈی اے کے سردار شیر محمد رند بلوچ کو شکست دی تھی۔
2002 کے عام انتخابات سے 2018 تک پیپلز پارٹی یہاں سے کامیاب رہی، آصف علی زرداری اور ان کی بہن سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر عذرا پیچو ہو اس حلقے سے کامیاب ہوتی رہی ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہےکہ روایتی حریف رند فیلی یہاں سے اپ سیٹ کر سکےگی یا پیپلز پارٹی ہی یہاں سے نشست نکالےگی۔
این اے 44 ڈیرہ اسماعیل خان سے مولانا فضل الرحمان ان کے روایتی حریف علی امین گنڈا پور اور فیصل کریم کنڈی کے درمیان کانٹےکا مقابلہ متوقع ہے۔
اس حلقے کے اہم امیدواروں میں جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمان، پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی، تحر یک انصاف کی حمایت سے علی امین گنڈاپور ، جماعت اسلامی کے یوسف خان شامل ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کو اس حلقے سے 1988، 1993، 2002، 2008 اور 2013 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی بننےکا اعزاز بھی حاصل ہے، وہ 2002 میں اپوزیشن لیڈر بھی رہ چکے ہیں، ان کے بیٹے مولانا اسعد محمود اور اسجد محمود بھی اس الیکشن کا حصہ ہیں۔
علی امین گنڈا پور نےگزشتہ الیکشن میں مولانا فضل الرحمان کو شکست دی تھی جب کہ فیصل کریم کنڈی ڈپٹی اسپیکرکے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری تین قومی اسمبلی کے حلقوں سے میدان میں اتر رہے ہیں جن میں این اے 194 لاڑکانہ، این اے 196 قمبر شہدادکوٹ، این اے 127 لاہور شامل ہیں۔
لاڑکانہ میں مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کا بھی بڑی تعداد میں ووٹ بینک موجود ہے۔
جمعیت علماء اسلام کے راشد محمود سومرو، جماعت اسلامی کے عاشق دھامرا جب کہ تحریک انصاف کی حمایت سے سیف اللہ ابڑ و آزاد امیدوار تھے جو بلاول بھٹو کے حق میں دستبردار ہو گئے تھے۔
2018 میں یہاں سے بلاول بھٹو نے راشد محمود سومر و کو شکست دی تھی۔
لا ہور کے حلقہ این اے 127 سے ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے مقامی رہنما ظہیر عباس کھوکھر اور ن لیگ کے عطاء اللہ تارڑ سے ہے۔
این اے 6 لوئر دیر سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق، محمد بشیر خان پی ٹی آئی کی حمایت سے، محمد حنیف پیپلز پارٹی سے، محمد شیر خان جمعیت علماء اسلام سے اور روح اللہ خان مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔
سراج الحق 1988 سے 1991 تک اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ، 2002 اور 2013 میں ایم پی اے، 2015 میں سینیٹر منتخب ہوئے۔
2018 میں لوئر دیر سے انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار محمد بشیر خان ہیں جنہوں نے سراج الحق کو 2018 میں شکست دی تھی۔
محمد بشیر 1996 سے تحریک انصاف سے منسلک ہیں، گزشتہ انتخابات میں خیبر پختونخوا سے جماعت اسلامی کے صرف مولاناعبدالاکبر چترالی فتح یاب ہوئے تھے، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پہلی بار سراج الحق قومی اسمبلی میں پہنچ سکیں گے یا نہیں۔
این اے248 سے ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدوار ارسلان خالد ، پیپلز پارٹی کے محمد حسن خان ، جماعت اسلامی کے محمد بابر خان اور ٹی ایل پی کے محمد امجد علی میدان میں ہیں۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی 2013 اور 2018 میں رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر بھی رہے۔
اب دیکھنا میں ہے کہ کراچی وسطی کے اس حلقے سےکون سا امیدوار میدان مارتا ہے۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے ایک مرتبہ پھر ایم کیوایم کے دھڑوں کو اکٹھا کیا ہے اور اب امید کی جارہی ہے کہ ایم کیوایم پاکستان دوبارہ کراچی کی سیاست میں اہم کردار ادا کرےگی۔
حلقہ این اے 264 کوئٹہ سے اختر مینگل بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ، پیپلز پارٹی سے نوابزادہ میر جمال خان رئیسانی، بلوچستان عوامی پارٹی کے پرنس احمد عمر احد زئی اس حلقے کے اہم امیدوار ہیں۔
اختر مینگل کے اس حلقہ سے کاغذات مستر د ہوۓ تھے، بعدازاں انہیں کلیئر کر دیا گیا۔
اختر مینگل 1988 سے 1997 تک چار مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوۓ،1997 میں وہ وزیراعلیٰ بھی منتخب ہوئے۔
مشرف دور میں انہوں نے لندن میں سیاسی پناہ حاصل کر لی، 25 مارچ 2013 کو وہ اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے عام انتخابات میں حصہ لینے کی غرض سے واپس لوٹے تاہم ان کی پارٹی صرف دو نشستیں ہی حاصل کر پائی۔
2018 میں وہ ایم این اے منتخب ہوئے، دیکھنا یہ ہےکہ وہ اور ان کی جماعت بلوچستان سے کتنی قومی اور صوبائی نشستیں حاصل کر پاتے ہیں۔
حلقہ این اے 33 نوشہرہ سے سید شاہ احد علی شاہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار، اختیار ولی خان ن لیگ ، جمعیت علماء اسلام کے حافظ اعجاز الحق، اے این پی کے خان پرویز خان ، جماعت اسلامی کے عنایت الرحمان اور سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز سے حصہ لے رہے ہیں۔
پرویز خٹک 1983 میں ممبرضلع کونسل،2008 میں قومی وطن پارٹی سے کامیاب ہوئے، 2013 پی ٹی آئی کے ایم پی اے اور وزیراعلیٰ بھی منتخب ہوۓ، 2018 میں ایم این اے اور وزیر دفاع کے منصب پر فائز رہے۔
اس مرتبہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں، پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک جمعیت علماء اسلام ف سے اپنے بھائی کے مدمقابل ہیں۔
میاں شہباز شریف قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 123 لاہور اور این اے 132 قصور سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
این اے 132 میں ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سردار محمد حسین ڈوگر، تحریک لبیک کے فقیر حسین، ابتسام الہٰی ظہیر آزاد حیثیت سے میدان میں ہیں۔
یہ سیٹ مسلم لیگ ن کے سابق ایم این اے ملک رشید خان کی تھی جنہوں نے یہاں پر شہباز شریف کو الیکشن لڑوانےکا اعلان کیا۔
تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سردارمحمد حسین ڈوگر 2 مرتبہ ایم پی اے رہ چکے ہیں۔
ان کی برادری سے سردار عاشق ڈوگر اور سردار شریف ڈوگر بھی اسمبلیوں کا حصہ رہے ہیں۔
معروف عالم دین ابتسام الہٰی ظہیر مشہور عالم دین علامہ احسان الہٰی ظہیر کے صاحبزادے ہیں۔
این اے123 لاہور سے ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے افضال عظیم پاہٹ، تحریک لبیک کے امجد نعیم اور جماعت اسلامی سے لیاقت بلوچ ہیں۔
این اے 148 ملتان میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق ایم این اے احمد حسین ڈیہڑ اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ بیرسٹر تیمور الطاف میں مقابلہ متوقع ہے۔
ان کے علاوہ جماعت اسلامی کے عاطف عمران اور تحر یک لبیک کے ملک اظہر بھی میدان میں ہیں۔
یوسف رضا گیلانی اور ان کے دو بیٹے عبدالقادرگیلانی اور سید علی موسٰی گیلانی بھی قومی اسمبلی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور نوے کی دہائی میں اسپیکر قومی اسمبلی بھی رہے۔
این اے 241کراچی سے ایم کیوایم کے ڈاکٹر فاروق ستار ، پیپلز پارٹی کے مرزا اختیار بیگ، پی ٹی آئی کی حمایت سے آزاد امیدوار اور پی ٹی آئی کراچی کے صدر خرم شیر زمان، تحریک لبیک کے محمد وسیم آپس میں مدمقابل ہیں۔
ایم کیوایم کے دھڑوں کے متحد ہونے اور پی ٹی آئی کے لیے مشکلات ہونے کی وجہ سے ایم کیوایم پاکستان کے سینیئر ڈپٹی کنوینر فاروق ستار اس مرتبہ بھر پور انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
خرم شیر زمان صدر تحر یک انصاف کراچی اور 2018 میں ایم پی اے بنے تھے اور سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر منتخب ہوئے۔
مسلم لیگ ن کے خواجہ محمد آصف، تحر یک انصاف کی حمایت سے ریحانہ امتیاز ڈار آزاد، پی پی پی سے خواجہ اویس مشتاق ، جماعت اسلامی سے طاہر محمود بٹ الیکشن کا حصہ ہیں۔
خواجہ آصف 6 مرتبہ ممبر قومی اسملی رہ چکے ہیں، وہ پہلی مرتبہ 1991 میں سینیٹر منتخب ہوئے۔
2018 میں وہ اپنے مخالف امیدوار عثمان ڈار سے صرف ایک ہزار ووٹوں کی برتری سے جیتے تھے۔
اس مرتبہ عثمان ڈار اور عمر ڈار کو پیش آنے والی مشکلات کے بعد ان کی والدہ ریحانہ امتیاز ڈار خود میدان میں ہیں، ان کے شوہر امتیاز الدین ڈار تحصیل ناظم سیالکوٹ رہے۔
این اے 100 فیصل آباد سے ن لیگ نے سابق وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ خان، تحر یک انصاف کی حمایت سے سمیرا نثار جٹ، پیپلز پارٹی کی سدرہ سعید بندیشہ، جماعت اسلامی کے ابرارحسین اور تحریک لبیک پاکستان کے عظیم رندھاوا الیکشن کا حصہ ہیں۔
سمیرا نثار جٹ متعدد بار ایم این اے رہنے والے چوہدری الیاس جٹ کی صاحبزادی ہیں اور تحر یک انصاف کی حمایت یافتہ امیدوار ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ پیپلز پارٹی کی سدره سعید بند یشہ، چوہدری الیاس جٹ کی بھتیجی ہیں۔
2018 میں رانا ثناءاللہ خان نے تحریک انصاف کے ڈاکٹر نثار جٹ کو شکست دی تھی۔
این اے 122 لاہور سے ن لیگ کے خواجہ سعد رفیق اور تحریک انصاف کی حمایت سے آزاد امید وار اور سابق گورنرلطیف کھوسہ میں اہم مقابلہ متوقع ہے۔
دیگر امیدواروں میں جماعت اسلامی کی ڈاکٹر زیبا اور مرکزی مسلم لیگ سے حافظ سعید کے صاحبزادے حافظ طلحہ سعید بھی میدان میں ہیں۔
یہاں سے سعد رفیق متعدد بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سردارلطیف کھوسہ ہیں، جن کی حال ہی میں پیپلز پارٹی کی رکنیت معطل ہوئی، جس کے بعد وہ باقاعدہ طور پر تحر یک انصاف میں شامل ہوگئے ۔
جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی نواب اکبر بگٹی کے پوتے ہیں اور این اے 253 سے الیکشن لڑ رہے ہیں ۔
ان کے مدمقابل اکبر بگٹی کے نواسے میر دوستین خان ڈومکی ن لیگ کے ٹکٹ سے میدان میں ہیں۔
ماضی میں دونوں الگ الگ حلقوں سے انتخاب لڑتے تھے مگر اس بار وہ ایک ہی حلقے سے میدان میں ہیں۔
دونوں پہلے ہی ایم این اے رہ چکے ہیں، میر دوستین ڈومکی نگران وزیراعلیٰ بلوچستان کے بھائی بھی ہیں۔
شاہ زین بگٹی وزیراعظم کے معاون خصوصی بھی رہے، وہ 2018 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
ماضی کی طرح موجودہ الیکشن میں بھی اس حلقے پر اہل سیاست کی گہری نظر ہے۔
یہاں کے اہم امیدواروں میں ن لیگ کے حنیف عباسی، عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد اور پی ٹی آئی کی حمایت سے شہر یار ر یاض الیکشن کا حصہ ہیں۔
شیخ رشید احمد توقع کر رہے تھے کہ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف اپنا امیدوار کھڑا نہ کرے مگر انہوں نے سابق ایم پی اے شہر یار ر یاض کو ٹکٹ جاری کر دیا۔
2018 اور 2013 میں یہاں سے عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے کامیابی حاصل کی تھی۔
یہاں سے ن لیگ کے حنیف عباسی جیت کے لیے پرامید ہیں۔
استحکام پاکستان پارٹی کے بانی جہانگیر خان ترین قومی اسمبلی کے این اے 149 ملتان اور این اے 155 لودھراں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
ملتان کی نشست پر ان کے مد مقابل تحریک انصاف کی حمایت سے ملک عامر ڈوگر ہیں، دونوں کا یہاں کڑا مقابلہ متوقع ہے۔
این اے 155 لودھراں سے جہانگیر ترین کا مقابلہ صدیق بلوچ سے ہے، تحر یک انصاف کی حمایت سے محمد اقبال شاہ میدان میں تھے مگر انہوں نے الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے۔
خبروں کے مطابق آزاد امید وار عفت طاہرہ کو تحر یک انصاف نے یہاں سے نامزد کیا ہے، یوں اس حلقے سے جہانگیرترین کے لیے قدرے آسانی ہوگئی ہے مگر ملتان میں انہیں کڑے مقابلےکا سامنا ہوگا۔
این اے24 چارسدہ سے سابق وزیراعلیٰ و چیئرمین قومی وطن پارٹی آفتاب احمد خان شیر پاؤ، مفتی گوھرعلی جے یوآئی،عرفان علی اے این پی، سابق ایم این اے انور تاج تحریک انصاف کی حمایت سے آزاد، فرخ خان ایڈووکیٹ ن لیگ ،شازیہ طہماش پی پی پی جب کہ حاجی سمیع اللہ جماعت اسلامی کے ٹکٹ سے میدان میں ہیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ این اے 24 پر اے این پی کے امیدوار عرفان عالم دستبردار ہوں گے اور اسی طرح این اے 25 چارسدہ پر قومی وطن پارٹی کے قیصرجمال دستبرداری کا اعلان کریں گے۔
آفتاب احمد خان شیر پاؤ متعدد بار رکن قومی اسمبلی جب کہ دو بار وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا رہ چکے ہیں۔
ماضی میں یہاں سے آفتاب شیر پاؤ کے علاوہ نسیم ولی خان، فضل داد خان، عبدالخالق خان اور انورتاج اسمبلی کا حصہ رہے ہیں ۔
سابق اسپیکر قومی وصوبائی اسمبلی این اے 19 صوابی میں تحریک انصاف کی حمایت سے آزاد امیدوار اسدقیصر ، اے این پی سے خانزادہ شاہنواز خان، جے یو آئی سے فضل ربی ، پیپلز پارٹی سے محمد بلال خان شیر پاؤ اور ن لیگ سے محمد شیراز خان اہم امیدوار ہیں۔
اسد قیصر حلقے میں بھر پور انتخابی مہم چلا رہے ہیں، اسد قیصر 2013 میں اسپیکر صوبائی اسمبلی رہے، 2018 میں اسپیکر قومی اسمبلی رہے۔
دیکھنا یہ ہےکہ وہ اس حلقے سے بطور آزاد امیدوار کامیاب ہوسکیں گے یا نہیں ۔
این اے 266 میں محمود خان اچکزئی پختونخوا ملی عوامی پارٹی، عبدالخالق مسلم لیگ ن، نظر محمد پیپلز پارٹی، صلاح الدین جمعیت علماء اسلام، شرافت الدین جماعت اسلامی اور عصمت اللہ خان کا کر پی ٹی آئی کی حمایت سے آزاد امیدوار ہیں۔
اس حلقے سے اصل مقابلہ جے یو آئی کے صلاح الدین اور محمود خان اچکزئی کے درمیان ہے۔
محمود خان اچکزئی چار مرتبہ ایم این اے بنے، 2018 میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔
صلاح الدین جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھتے ہیں اور 2018 میں انہوں نے محمود خان اچکزئی کو شکست دی تھی۔
مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا کے صدر امیر مقام قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 11 اور این اے 2 سے الیکشن کا حصہ ہیں۔
این اے 11 شانگلہ میں تحریک انصاف کی حمایت سے آزادامیدوار سیدفرین، پیپلز پارٹی کے محمد عالم خان بھی میدان میں ہیں۔
سوات کے حلقے سے امیر مقام کا مقابلہ تحر یک انصاف کی حمایت سے آزاد امیدوار ڈاکٹر امجد، پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق ایم این اے ڈاکٹر حیدر علی خان، اے این پی کے سابق صوبائی وزیر محمد ایوب خان ، جماعت اسلامی کے نویداقبال، جے یو آئی (ف) کے امیدوار مولانا عبدالغفور مد مقابل ہیں۔
این اے 119 سے ن لیگ کی سینیئر نائب صدر مریم نواز ، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ شہزاد فاروق ، پیپلز پارٹی کے افتخار شاہد اہم امیدوار ہیں۔
اس حلقے کو مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جا تا ہے، اسی وجہ سے مریم نواز کے لیے یہ حلقہ منتخب کیا گیا ہے اور وہ پہلی بار یہاں سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہی ہیں۔
مریم نواز نے 2018 میں بھی اسی حلقے سےکاغذات جمع کروائے تھے لیکن الیکشن سے پہلے ہی نا اہل کر دیا گیا تھا۔
تحریک انصاف کے شہز ادفاروق عبادفاروق کے بھائی ہیں جو تحر یک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر تھے۔
عبدالعلیم خان استحکام پاکستان پارٹی کے صدر ہیں اور وہ حلقہ 117لاہور سے مسلم لیگ ن کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ الیکشن لڑ رہے ہیں۔
ان کے مد مقابل پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار علی اعجاز بٹر، پیپلز پارٹی کے آصف ہاشمی اہم امیدوار ہیں۔
عبدالعلیم خان نے اپنی سیاست کا آغاز سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ ق سے کیا اور 2002 میں پہلی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر بنے۔
2013 میں علیم خان پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
پھر 2015 کے ضمنی الیکشن میں انہیں ن لیگی رہنما ایاز صادق کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
2018 میں بھی انہیں قومی نشست پر شکست ہوئی لیکن وہ صوبائی نشست سےکامیاب ہوگئے۔
این اے246 کراچی غربی سےسید امین الحق ایم کیوایم ، حافظ نعیم الرحمان جماعت اسلامی ، ملک عارف اعوان پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار میدان میں ہیں۔
حافظ نعیم الرحمان جماعت اسلامی کراچی کے امیر ہیں، حیدرآباد کے مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھنے والے حافظ نعیم الرحمان 1988 میں اسلامی جمعیت طلبہ سے منسلک ہوۓ ، جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے حافظ نعیم الرحمان کو 2013 میں امیر جماعت اسلامی کراچی منتخب کیا۔
ایم کیوایم کے امین الحق سابق وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی رہے ہیں۔
یہ حلقہ روایتی حریف چوہدری نثار علی خان اور غلام سرور خان کا ہے، اس نشست پر ن لیگ اور آئی پی پی کی سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کے بعد مسلم لیگ ن کے سابق ٹکٹ ہولڈر بیرسٹر عقیل آزاد حیثیت سے میدان میں اترے ہیں۔
چوہدری نثارعلی خان آزاد اور غلام سرور خان آئی پی پی سے امیدوار ہیں، 2018 میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ سے غلام سرور خان نے آزاد امید وار چوہدری نثار علی خان کو شکست دی تھی ۔
2013 میں بھی غلام سرور خان نے چوہدری نثار علی خان کو شکست دی تھی۔
این اے 203 سے پیپلز پارٹی سے سید فضل علی شاہ جیلانی ، جی ڈی اے سے پیر صدر الدین شاہ راشدی، تحریک لبیک کے عبدالرحمان شر امیدوار ہیں۔
پیر صدر الدین شاہ راشدی موجودہ پیر پگاڑا پیر صبغت اللہ شاہ کے چھوٹے بھائی ہیں، وہ خیر پور کے مختلف حلقوں سے ایم این اے اور ایم پی اے منتخب ہوتے رہے ہیں۔
2013 میں وہ ایم این اے اور وفاقی وزیر بنے، 2018 میں پیپلز پارٹی کے پیر فضل علی شاہ جیلانی سے ہارگئے، پیر فضل علی شاہ جیلانی چار مرتبہ ایم این اے منتخب ہوئے۔
این اے 18 ہری پور سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار عمر ایوب خان، جماعت اسلامی کے غزن اقبال خان ترین ایڈووکیٹ ، جے یو آئی کے مولا نا ایوب صدیقی ،مسلم لیگ ن کے بابر نواز خان اہم امیدوار ہیں ۔
تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سابق وفاقی وزیر عمر ایوب خان اور بابر نواز خان رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں، بابر نواز خان کے والد اختر نواز خان خیبر پختونخوا کے وزیر تھے جنہیں قتل کر دیا گیا تھا۔