ہارٹ اٹیک اور امراض قلب سے بچنے کیلئے کتنی ورزش کرنا ضروری ہے؟

امراض قلب سے بچنا زیادہ مشکل نہیں / فائل فوٹو
امراض قلب سے بچنا زیادہ مشکل نہیں / فائل فوٹو

دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات امراض قلب کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔

دل کی صحت سے جڑے مسائل بشمول ہارٹ اٹیک، دل کی دھڑکن کی رفتار میں بے ترتیبی یا اس عضو کے مختلف حصوں کو پہنچنے والے ہر قسم کے نقصان کے لیے امراض قلب کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

ایسا تصور کیا جاتا ہے کہ امراض قلب کا سامنا بڑھاپے یا کم از کم درمیانی عمر میں ہوتا ہے۔

مگر حالیہ برسوں میں جوان افراد میں دل کے امراض کی شرح میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ صحت مند طرز زندگی سے دل کو صحت مند رکھنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا اور اس حوالے سے ورزش اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ورزش کو معمول بنانے سے ہمارے جسم کو متعدد فوائد ہوتے ہیں خاص طور پر دل کی صحت کو فائدہ ہوتا ہے۔

تاہم دل کو صحت مند رکھنے کے لیے کتنی ورزش کرنا ضروری ہے؟

اس کا جواب امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن نے دیا ہے۔

امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق ہر ہفتے کم از کم 150 منٹ (ڈھائی گھنٹے) تک معتدل ورزش جیسے چہل قدمی کرنے سے دل کو صحت مند رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

اسی طرح ہر ہفتے 75 منٹ کی سخت ورزش سے بھی دل کو صحت مند بنایا جا سکتا ہے۔

مگر طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ضرورت سے زیادہ ورزش کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

خیال رہے کہ جن افراد کے خاندان میں امراض قلب کی تاریخ ہوتی ہے، ان میں ہارٹ اٹیک یا دل کی دیگر بیماریوں کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے اور انہیں ورزش کو معمول بنانے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

کچھ تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ دن بھر میں 15 منٹ کی ورزش بھی صحت کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔

15 منٹ بظاہر بہت کم وقت لگتا ہے مگر تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ کچھ منٹ کی ورزش بھی جسمانی سرگرمیوں سے دور رہنے سے بہتر ہوتی ہے۔

امریکن کالج آف اسپورٹس میڈیسن نے 10 سے 15 منٹ کی ہلکی پھلکی جسمانی سرگرمیوں سے ورزش کے آغاز کا مشورہ دیا ہے۔

زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ چہل قدمی کے لیے 15 منٹ نکالنا زیادہ مشکل نہیں۔

ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ کے مطابق چہل قدمی کی رفتار اتنی تیز ہونی چاہیے جس سے دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھ جائے۔

تیز رفتاری سے چہل قدمی سے بلڈ پریشر کی سطح میں کمی آتی ہے جبکہ جسمانی توانائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

اس عادت سے جسم کو بھی ورزش کے معمول کی عادت ہوتی ہے اور اسٹیمنا بڑھتا ہے۔

گھر کی صفائی، بچوں کے ساتھ کھیلنا، تاخیر کے احساس سے کسی جگہ جلد پہنچنےکی کوشش، رقص اور ہنسنا بھی جسمانی سرگرمیوں کا حصہ ہیں، یعنی صحت کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔

یہ بات جان لیں کہ ورزش کا دورانیہ جتنا بھی ہو، جسم کے لیے فائدہ مند ہی ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق کسی بھی عمر میں جسمانی سرگرمیوں کو معمول بنانا صحت کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے اور درمیانی عمر یا بڑھاپے میں بھی آپ اس عادت سے خود کو صحت مند بنا سکتے ہیں۔

مزید خبریں :