02 فروری ، 2024
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک فرد کو 5 سے 10 چائے کے چمچ کے برابر ہر قسم کی مٹھاس جیسے چینی یا غذاؤں میں موجود شکر کا استعمال کرنا چاہیے۔
مگر یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بیشتر افراد روزانہ بہت زیادہ مقدار میں چینی کو اپنے جسم کا حصہ بناتے ہیں۔
مختلف غذاؤں جیسے پھلوں، سبزیوں، دودھ یا اس سے بنی مصنوعات اور اجناس میں قدرتی شکر موجود ہوتی ہے، ہمارا نظام ہاضمہ اس قدرتی مٹھاس کو سست روی سے ہضم کرتا ہے تاکہ جسم کو مسلسل توانائی فراہم کی جاسکے۔
اس کے مقابلے میں چینی جسم میں جاکر فوری طور پر ہضم ہوجاتی ہے جس سے بلڈ شوگر کی سطح میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔
امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق خواتین کو دن بھر میں 25 گرام (6 چائے کے چمچ) جبکہ مردوں کو 36 گرام (9 چائے کے چمچ) سے زیادہ چینی کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
مگر اس وقت کیا ہوتا ہے جب آپ اچانک چینی کو اپنی غذا سے مکمل طور پر نکال دیں؟
جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ قدرتی غذاؤں میں بھی شکر کاربوہائیڈریٹس کی شکل میں موجود ہوتی ہے اور ہمارے جسم کو اپنے افعال کے لیے چینی سے ملنے والی مٹھاس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اگر آپ روزانہ چینی کی بہت زیادہ مقدار کا استعمال کرتے ہیں تو اس سے اچانک دوری سے سردرد، چڑچڑے پن، تھکاوٹ، سر چکرانے اور توجہ مرکوز نہ کرپانے جیسی ابتدائی علامات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
البتہ اگر آپ چینی کا استعمال ترک کر دیتے ہیں تو پھر جسم پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
چینی کا زیادہ استعمال بلڈ شوگر میں اضافے کا باعث بنتا ہے جس کے نتیجے میں لبلبے سے انسولین کی زیادہ مقدار کا اخراج ہوتا ہے۔
انسولین وہ ہارمون ہے جو بلڈ گلوکوز کی سطح میں کمی لاتا ہے۔
جب بار بار بلڈ شوگر کی سطح میں کمی لانے کے لیے انسولین کا اخراج ہوتا ہے تو اس سے انسولین کی مزاحمت پیدا پوتی ہے۔
یہ ایک ایسا عارضہ ہے جس کے دوران خلیات انسولین پر درست طریقے سے ردعمل ظاہر نہیں کرتے جس سے ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ بڑھتا ہے۔
چینی کا استعمال ترک کرنے سے انسولین کی سطح مستحکم ہوتی ہے جس سے انسولین کی مزاحمت کا خطرہ گھٹ جاتا ہے جبکہ میٹابولک صحت بہتر ہوتی ہے۔
جب آپ غذا سے چینی کو نکال دیتے ہیں تو آغاز میں چڑچڑے پن اور غصے جیسے احساسات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ہر فرد میں یہ اثر مختلف ہو سکتا ہے مگر بتدریج مزاج خوشگوار ہونے لگتا ہے۔
بلڈ شوگر مستحکم ہونے اور معدے کی صحت بہتر ہونے سے مزاج پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ایک طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ چینی کے بہت زیادہ استعمال سے امراض قلب سے موت کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے۔
اس کی وجہ تو واضح نہیں مگر ماہرین کے خیال میں زیادہ میٹھا کھانے سے بلڈ پریشر کی سطح بڑھتی ہے یا خون میں چکنائی کی مقدار بڑھتی ہے، یہ دونوں ہی ہارٹ اٹیک، فالج اور دیگر امراض قلب کا خطرہ بڑھانے والے عناصر ہیں۔
اس کے مقابلے میں چینی کا استعمال ترک کرنے سے خون میں چکنائی کی سطح گھٹ جاتی ہے جس سے دل کی شریانوں کی صحت بہتر ہوتی ہے اور امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
جی ہاں چینی کا استعمال ترک کرنے سے جسمانی وزن میں کمی لانے میں مدد مل سکتی ہے۔
میٹھے مشروبات اور غذاؤں میں کیلوریز کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے مگر جسم کے لیے مفید اجزا نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
ان مشروبات یا غذاؤں کو لوگ زیادہ مقدار میں استعمال کرلیتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں چینی سے دوری سے جسم کا حصہ بننے والی کیلوریز کی تعداد میں کمی آتی ہے جس سے جسمانی وزن میں بھی کمی آتی ہے۔
درحقیقت چینی کا بہت کم استعمال پیٹ اور کمر کے اردگرد چربی کو بھی کم کرتا ہے۔
زیادہ مقدار میں چینی کھانے سے جسم میں ورم کی سطح بڑھتی ہے بلکہ یہ ورم دائمی شکل اختیار کرلیتا ہے جو صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔
جسمانی ورم سے امراض قلب، جوڑوں کے امراض اور کینسر جیسی بیماریوں کا خطرہ بڑھتا ہے۔
جب آپ چینی کا استعمال کم کر دیتے ہیں یا بالکل نہیں کرتے تو جسمانی ورم کی سطح بھی گھٹ جاتی ہے جس سے دیگر امراض کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
جب آپ چینی سے دوری اختیار کرتے ہیں تو آغاز میں تھکاوٹ یا سستی کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ جسم کو چینی کے بغیر توانائی کے ذخائر بنانے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
چینی کے زیادہ استعمال سے توانائی کی سطح میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا ہے مگر پھر اچانک کمی بھی آتی ہے۔
چینی سے دوری سے بلڈ شوگر کی سطح مستحکم ہوتی ہے اور دن بھر توانائی کی سطح مستحکم رہتی ہے۔
چینی کے زیادہ استعمال سے جِلدی امراض جیسے کیل مہاسوں کی شدت بڑھ جاتی ہے۔
کیل مہاسوں کے ساتھ ساتھ چینی کا زیادہ استعمال جِلد کو قبل از وقت بڑھاپے کا بھی شکار بناتا ہے۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دن بھر میں ایک سافٹ ڈرنک پینے والے افراد میں قبل از وقت بڑھاپے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جبکہ چہرے پر جھریاں بھی نمودار ہوسکتی ہیں۔
اس کے مقابلے میں چینی سے دوری اختیار کرنے سے جِلد کی صحت بہتر ہوتی ہے جبکہ اس کی لچک بڑھ جاتی ہے۔
ہمارا معدہ چینی کو پسند نہیں کرتا۔
چینی کے زیادہ استعمال سے معدے میں موجود بیکٹریا کا توازن بگڑتا ہے اور صحت کے لیے نقصان دہ بیکٹریا کی نشوونما بڑھ جاتی ہے۔
جب ایسا ہوتا ہے تو نظام ہاضمہ کے مختلف امراض کا خطرہ بڑھتا ہے جبکہ مدافعتی نظام بھی کمزور ہوتا ہے۔
چینی کے کم استعمال سے معدے میں موجود بیکٹریا کا توازن بہتر ہوتا ہے جس سے نظام ہاضمہ زیادہ بہتر کام کرتے ہوئے غذائی اجزا کو مؤثر طریقے سے جذب کرتا ہے، جس سے مدافعتی نظام کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔
چینی کے زیادہ استعمال سے نیند کے حصول میں مدد فراہم کرنے والے ہارمونز جیسے میلاٹونین اور سیروٹونین بننے کے عمل پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اسی طرح چینی کے زیادہ استعمال سے بلڈ گلوکوز کی سطح بڑھ جاتی ہے جس کے باعث دن کے وقت غنودگی کی کیفیت طاری ہوسکتی ہے جبکہ شام میں نیند آنکھوں سے اڑ جاتی ہے۔
زیادہ چینی کے استعمال سے گہری نیند کا دورانیہ بھی گھٹ سکتا ہے جس سے نیند کا معیار متاثر ہوتا ہے۔
اس کے مقابلے میں چینی سے دوری یا اس کا استعمال کم کرنے سے نیند کا معیار بہتر ہوتا ہے کیونکہ ہارمونز زیادہ مؤثر طریقے سے کام کرنے لگتے ہیں۔
زیادہ میٹھا کھانے سے دانت بھی متاثر ہوتے ہیں۔
چینی ہمارے منہ میں موجود بیکٹریا کے لیے غذا ثابت ہوتی ہے جس سے مختلف امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔
میٹھے مشروبات، ٹافیوں اور خشک پھلوں سے منہ میں تیزابیت بڑھتی ہے جس سے دانتوں کی سطح متاثر ہوتی ہے۔
اس کے مقابلے میں جب آپ چینی سے دوری اختیار کرتے ہیں تو مسوڑوں اور دانتوں کے امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے جبکہ منہ کی مجموعی صحت بہتر ہو جاتی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔