26 مارچ ، 2024
سپریم کورٹ کے جسٹس یحییٰ آفریدی نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس میں تاحیات نا اہلی ختم کرنے کے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کی تفصیلی وجوہات جاری کر دیں اور اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلے کے تحت بھی نا اہلی تاحیات نہیں تھی۔
سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ کی اکثریت نے تاحیات نا اہلی کے عدالتی فیصلے کو ری وزٹ کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ عدالت کے پاس ایسا ڈیکلریشن دینے کے اختیارات نہیں۔
عدالت نے سیاست دانوں کی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نا اہلی کو کالعدم قرار دیا تھا۔ 1-6 کی اکثریت سے آنے والے فیصلے سے جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلاف کیا تھا جس کی تفصیلی وجوہات کا 19صفحات کا نوٹ جاری کر دیا گیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سمیع اللہ بلوچ کیس میں سابق چیف جسٹس عمرعطابندیال کےفیصلےکی حمایت میں نوٹ تحریرکیا اور کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں طے نا اہلی مدت الیکشن ایکٹ میں طے5 سالہ مدت پرحاوی ہے۔
انہوں نے قرار دیا کہ پارلیمنٹ سادہ قانون سازی سےسپریم کورٹ کافیصلہ ختم نہیں کر سکتی، 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 61 ون ایف میں مدت کا تعین نہیں کیا گیا، 18ویں ترمیم کا جائزہ لیتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے، یہ ترمیم سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کی تھی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس کے مطابق نا اہلی کورٹ آف لاکاڈیکلیریشن باقی رہنے تک ہے، سمیع اللہ بلوچ فیصلے کے مطابق بھی نااہلی تاحیات نہیں تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ میری رائے میں سپریم کورٹ کا نااہلی سے متعلق سابقہ فیصلہ قانونی طورپردرست ہے، سپریم کورٹ کا سابقہ فیصلہ طے شدہ اصولوں اور پارلیمانی سوچ کا عکاس ہے ، میری رائے میں سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ درست تھا۔