19 اپریل ، 2024
خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو 11 سال ہو رہے ہیں تاہم ضلع خیبر میں دہشت گردی کےدوران تباہ ہونے والے 50 اسکولوں کی تعمیر نو ممکن نہ ہوسکی۔
ضلع خیبر میں دیگر قبائلی اضلاع کی طرح دہشت گردی کے دور میں یعنی 2006 سے لے کر 2013 تک 50 تعلیمی ادارے بارودی مواد سے اڑا کر تباہ کردیے گئے جس میں زیادہ تر گرلز اسکول شامل ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف گزشتہ گیارہ سال سے خیبر پختونخوا میں سیاہ وسفید کی مالک ہے اور 2016 میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب ملٹری آپریشن کے باعث صوبے میں مکمل امن بھی قائم ہوا تاہم دہشت گردی کے دوران ضلع خیبر میں تباہ ہونے والے 50 اسکولوں کی تعمیر نو ممکن نہ ہوسکی۔
محکمہ تعلیم ضلع خیبرکے ترجمان طاہر خان آفریدی کے مطابق تباہ ہونے والے تعلیمی اداروں کو 5 سال قبل صوبائی حکومت نے چین کے تعاون سے تعمیر نو کی منظوری دی تاہم تعمیراتی کام بروقت شروع نہ کرنے سے مٹیریل کی قیمتیں بڑھ گئیں اور یوں تعمیرنو کا یہ عمل شروع نہ ہوسکا۔
یوں تعلیم دشمن عناصر کے ہاتھوں اور حکمرانوں کی غفلت کے باعث ضلع خیبر میں گزشتہ ایک دہائی سے ہرسال ہزاروں طلبا تعلیم کے زیور سے محروم ہو رہے ہیں۔
سال 2009 میں دہشت گردی سے تباہ ہونے والے گورنمنٹ ہائی اسکول عالم گودر کے پرنسپل رفاقت شاہ نے جیونیوز کو بتایا کہ 2009 میں جس وقت اسکول کو تباہ کیاگیا اس وقت چار ہزار طلبا اسکول میں زیر تعلیم تھے۔
2016 میں اسکول جب دوبارہ کھول دیاگیا تو آج تک مسلسل طلبا اور اساتذہ سکول آتے ہیں اور انتہائی لگن اور دیانت داری کے ساتھ درس وتدریس کا سلسلہ جاری ہے جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ ہمارا اسکول میٹرک کے سالانہ امتحان میں نہ صرف سو فیصد نتائج حاصل کرتا ہے بلکہ گزشتہ دو سالوں سے بورڈ سالانہ امتحان میں ضلع خیبر کے سرکاری اسکولوں میں فرسٹ سیکنڈ اور تھرڈ پوزیشن بھی حاصل کرتا ہے۔
اسکول کے سائنس ٹیچر شاہد علی کے مطابق اسکول میں بجلی ہے نہ پانی، لائبریری ہے نہ لیبارٹری، نہ ٹاٹ میسر اور نہ پڑھائی کے لیے کلاس روم، بس گزشتہ 8 سالوں میں صرف دو تین خیمےفراہم کیے گئے ہیں۔
اس حوالے سے صوبائی وزیر اوقاف صاحبزادہ عدنان قادری نے جیونیوز کو بتایا کہ اس بار صوبائی حکومت پرعزم ہےکہ تباہ ہونےوالے تعلیمی اداروں کی تعمیر نو اولین ترجیحات ہیں۔
صاحبزاہ عدنان قادری نےکہا کہ وہ پی ٹی آئی حکومت کی کوتاہی کو تسلیم کرتے ہیں پھر بھی اس بار تباہ ہونے والے تعلیمی اداروں کی تعمیر نو کرکے دم لیں گے اور طلبا کی احساس محرومی کا خاتمہ کریں گے۔
ضلع خیبر میں تباہ ہونے والی درس گاہوں کی تعمیرنو سے نہ صرف شرح خواندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے بلکہ یہ نوجوان نسل کے لیے صبح نو کی نوید بھی ثابت ہوسکےگی۔