Time 30 اپریل ، 2024
صحت و سائنس

گرم موسم میں اس مشروب کو پینے کے فوائد جانتے ہیں؟

اس مشروب کے فوائد حیران کن ہیں / فائل فوٹو
اس مشروب کے فوائد حیران کن ہیں / فائل فوٹو

گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس موسم میں تھکاوٹ، قبض یا جسمانی توانائی میں کمی جیسے مسائل کا عام سامنا ہوتا ہے۔

مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ کشمش کا پانی پینے سے موسم گرما کے دوران لاحق ہونے والے مسائل سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے؟

فائبر، اینٹی آکسائیڈنٹس اور دیگر غذائی اجزا سے بھرپور ہونے کی وجہ سے یہ مشروب بہت زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ اسے تیار کرنا بھی مشکل نہیں، بس ایک گلاس پانی میں کچھ مقدار میں کشمش کو رات بھر بھگو کر رکھیں اور صبح اسے چھان کر پی لیں۔

طبی ماہرین کے مطابق یہ مشروب نظام ہاضمہ کو مضبوط بناتا ہے، جسم سے کچرے کا اخراج اور مختلف غذائی اجزا کی فراہمی یقینی بناتا ہے۔

موسم گرما میں اس مشروب کے استعمال کے چند فوائد درج ذیل ہیں۔

قدرتی شکر کے حصول کا بہترین ذریعہ

کشمش میں قدرتی شکر کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے اور یہ مٹھاس جسمانی توانائی میں فوری اضافہ کرتی ہے۔

کشمش میں چکنائی اور نمکیات کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے مگر فائبر کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جس سے نظام ہاضمہ کو فائدہ ہوتا ہے اور قبض کی روک تھام ہوتی ہے۔

اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور

کشمش میں اینٹی آکسائیڈنٹس کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے۔

اینٹی آکسائیڈنٹس سے جسم کو تکسیدی تناؤ سے تحفظ ملتا ہے جو مختلف دائمی امراض جیسے امراض قلب اور کینسر کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

کشمش کو بھگونے سے اینٹی آکسائیڈنٹس پانی میں مل جاتے ہیں اور اس طرح یہ صحت کے لیے مفید مشروب بن جاتا ہے۔

پانی کی کمی سے تحفظ

کشمش کا پانی پینے سے جسم کو موسم گرما کے دوران ڈی ہائیڈریشن سے تحفظ فراہم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

کشمش میں موجود اجزا اور منرلز پانی میں مکس ہو جاتے ہیں جس کی وجہ یہ صحت کے لیے مفید مشروب بن جاتا ہے۔

آنتوں کے لیے بھی مفید

فائبر کی موجودگی کے باعث کشمش کا پانی ہلکے جلاب جیسا اثر رکھتا ہے جس سے آنتوں کے افعال بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔

اس مشروب کو روزانہ پینے سے نظام ہاضمہ کو تقویت ملتی ہے اور مجموعی صحت بہتر ہوتی ہے۔

جسم کو ٹھنڈا رکھتا ہے

کشمش کے پانی کو پینے سے گرم موسم میں خود کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

اس کی وجہ کشمش کی ٹھنڈک پہنچانے والی خصوصیات ہیں۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :