04 جولائی ، 2024
اسلام آباد: 1.774 ٹریلین کے بھاری ٹیکسز کا نفاذ بھی مطلوبہ وصولیاں پیدا کرنے کے حوالے سے آئی ایم ایف کو قائل کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔
آئی ایم ایف نے اعتراضات کیے ہیں کہ 12.97 ٹریلین کا ایف بی آر کا سالانہ آمدن کا ٹارگٹ موجودہ بجٹ اقدامات کے ساتھ پورا نہیں ہوپائے گا، آئی ایم ایف نے نئے مالی سال میں آمدن کے مطلوبہ اعداد و شمار کے حصول کےلیے انتطامی اقدامات کو ریونیو جمع کرنے کےلیے ایک اوزار کے طورپر قبو ل کرنے سےانکار کردیا ہے۔
پاکستانی حکام کے پاس کوئی سراغ نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اعداد وشمار پر کس طرح سے مطابقت پیدا کی جائے۔
دوسری جانب چند سرکاری کوآرٹرز ابھی تک پرامید ہیں کہ اسٹاف لیول ایگریمنٹ موجودہ مہینے کے آخر تک یا آئندہ ماہ میں طے پاسکتا ہے، فریقین میں فنانس ایکٹ 2024-25 میں منظور ہونے والے اقدامات کے تخمینے کے حوالے سے اختلافات ابھر آئے ہیں جس میں آئی ایم ایف کا تخمینے کے مطابق 200 سے 250 ارب روپے کا خلا ہے۔
اعلیٰ سرکاری ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اس سے حکومت پر مجبور ہوسکتی ہے کہ وہ پرچون فروشوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کےلیے سخت ترین اقدامات کا اعلان کرے، نان فائلرز کے خلاف نفاذ کی مہم جو سموں کی بندش کے ذریعے جاری ہے وہ بھی آنے والے دنوں میں مزید تقویت پکڑ سکتی ہے لیکن ابھی تک آئی ایم ایف ٹیکسیشن کےاقدامات سے مطمئن نہیں ہے۔
بھاری ٹیکسیشن نے آئی ایم ایف کی ٹیم کوکنفیوز کردیا ہے اور ابھی تک وہ ایف بی آر کا یہ مؤقف ماننے کے لیے یے تیار نہیں ہے کہ ٹیکس کے ان اقدامات سے 1.747ٹریلین روپے سے زائد کا اضافی ٹیکس حاصل ہوسکتا ہے جبکہ شرح ترقی بہت معمولی رہے گی۔
ایف بی آر کے ٹیکس ہدف کی بنیاد بنیادی سال کی آمدن بشمول عمومی شرح ترقی ہے اور اضافی ریونیو اقدامات اس ریونیو کے تخمینے میں جمع کیے گئے ہیں۔
اس کلیکشن کے ساتھ ایف بی آر کو ایڈیشنل ریونیو درکا ر ہے جو کہ 3.664 ٹریلین روپے ہے تاکہ مجموعی اہداف 12.97 ٹریلین ظاہر کیاجاسکے تاہم معمولی شرح ترقی اور ٹیکسیشن کے اقدامات سے 3.19 ٹریلین کی اضافی رقم ہی جمع ہوسکتی ہے چنانچہ اس کے باوجود 0.46 ٹریلین کا خلا موجود ہے۔
آئی ایم ایف نے اپنے حساب کتاب کے بعد جو تخمینہ لگایا ہے اس کے مطابق اسے اصرار ہے کہ ریونیو کے فرنٹ 0.2 سے 0.25 ٹریلین روپے کا خلا موجود ہے۔حکومت نے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے ان میں سے کچھ کی منظوری حکومت نے عجلت میں دی ہے اور نفاذ کے مرحلے پر عملی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں، مثال کے طور پر املاک کے لین دین میں 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کےاطلاق سے قانونی لڑائی شروع ہوسکتی ہے۔ سرکاری ملازموں کو املاک کی فروخت میں اس ڈیوٹی سے استثنیٰ دینے کا غلط استعمال ہوسکتا ہے۔
حکومت آگے کنواں پیچھے کھائی جیسی صورتحال کا شکار ہوگئی ہےکیونکہ دوسری جانب اسے تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقات پر ٹیکسوں کی بھرمار سے ناقابل تصوربوجھ ڈالنے پر شدید ترین تنقید کا سامنا ہے ۔ اس نے جنرل سیلز ٹیکس کے استثنیٰ بھی واپس لے لیے ہیں، املاک پر برآمد کنندگان ، موبائل فونز، فائرز کےلیے بڑی شرحیں اور بالخصوص نان فائلزر پرلگائے گئے ٹیکسوں کی ہوشربا شرح اور ریگولیٹری ڈیوٹی اور ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی اور بہت سے دیگرڈیوٹیاں بھی شامل ہیں۔
ادھر آئی ایم ایف ابھی بھی غیر مطمئن ہے اور وزارت خزانہ اور ایف بی آر کی جانب سے سخت کوششیں کی جارہی ہیں کہ آئی ایم ایف کو کچھ نرمی دکھانے پر آمادہ کیاجاسکے۔
ٹیکسیشن کے اقدامات کے حوالے سے عہدیدار کا کہنا ہے کہ حکومت نے 10فیصد سرچارج انکم ٹیکس پر لگا یا ہے جو کہ 100ملین روپے سالانہ سے بڑھے گی۔
گزشتہ سال حکومت نے تنخواہ دار طبقے سے 375 ارب روپے جمع کیا تھا اور اب وہ اسی طبقے سے 475 ارب کا کمانا چاہتی ہے ۔ ایف بی آر نے سیمنٹ کی ہر بوری پر وفاقی ایکسائز ڈیوٹی میں 100فیصد اضافہ کرتے ہوئے اسے 2روپے سے بڑھا کر 4 روپے فی کلو کردیا ہے اور ایف بی آر کو امید ہے کہ وہ اس سے 80 ارب روپے کما کر ’ قومی خزانے‘ میں ڈالے گا۔
ایف بی آر گزشتہ برس کے 9.3 ٹریلین روپے کے ٹیکس کلیکشن کو بڑھا کر رواں برس 12.97 ٹریلین روپے کمانا چاہتا ہے جو کہ 40 فیصد اضافہ ہے۔