Time 07 جولائی ، 2024
پاکستان

وزیراعظم شہباز شریف کو درپیش اصل چیلنج کیا ہے؟

وزیراعظم شہباز شریف کو درپیش اصل چیلنج کیا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی کابینہ کی منظوری ابھی تک قابل قبول ہے اور موجودہ حکومت اس پر عمل درآمد کر سکتی ہے اگر اس کی سیاسی مرضی ہو۔ فوٹو فائل 

اسلام آباد:  وزیراعظم شہباز شریف کو بیوروکریسی کی جانب سے پچھاڑے جانے کا چیلنج درپیش ہے کیونکہ اس نے یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کی وفاق کے پھیلے ہوئےحجم کو کم کرنے کی کوششیں ناکام بنائی ہیں اور یہی وزیراعظم شہباز شریف کا اصلی چیلنج ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے پہلے ہی بنائی گئی دو کفایت شعاری کمیٹیوں کی سفارشات کو نظر انداز کرنے، جنہیں اس سے قبل انہوں نے خود تشکیل دیا تھا، اور وفاقی حکومت کا حجم کم کرنے کیلئے تیسری کو وزیر خزانہ کی سربراہی میں سونپنے کے فیصلے سے شکوک و شبہات پیدا ہو چکے ہیں۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں وفاقی حکومت کی تنظیم نو کے بڑے منصوبے کی منظوری دی تھی اور کل 441 میں سے 325 وفاقی حکومت کے اداروں کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم کابینہ کی منظوری کے باوجود بیوروکریسی کے تردد کی وجہ سے منصوبہ ناقابل عمل رہا۔

کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی کابینہ کی منظوری ابھی تک قابل قبول ہے اور موجودہ حکومت اس پر عمل درآمد کر سکتی ہے اگر اس کی سیاسی مرضی ہو۔ 

شہباز شریف حکومت پر میڈیا اور سیاسی جماعتوں کا دباؤ ہے کہ وہ عوام پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگانے کے بجائے اپنے اخراجات کم کریں۔

اس وقت کے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ادارہ جاتی اصلاحات پر ٹاسک فورس کی سفارش پر عمران خان کی کابینہ نے 43 سرکاری اداروں کی نجکاری یا سرمایا پاکستان لمیٹڈ کو منتقلی، صوبائی حکومتوں، اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری اور گلگت بلتستان کو 15 اداروں کی منتقلی، آٹھ اداروں کی بندش یا خاتمہ اور اور 32 اداروں کے انضمام کی منظوری دی تھی۔

پی ٹی آئی کابینہ نے 17 اداروں کو ٹریننگ اینڈ پالیسی سپورٹ انسٹی ٹیوٹ کے طور پر از سر نو تشکیل دینے کی تجویز کی منظوری دی تھی۔ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ حکومت دو وسیع زمروں (الف) ایگزیکٹو محکمے اور (ب) خودمختار ادارے کے تحت 325 اداروں کو برقرار رکھے گی۔

عمران خان کی حکومت کی ٹاسک فورس برائے کفایت شعاری اور حکومت کی تنظیم نو نے وفاقی حکومت کے 441 اداروں کا جائزہ لیا اور ان اداروں کو 18 کیٹیگریز میں تقسیم کیا جن میں آئینی ادارے، ریگولیٹری اتھارٹیز، عدالتیں/ٹربیونلز، تجارتی/نیم تجارتی ادارے، عوامی سہولیات/خدمات فراہم کرنے والے، فروغ دینے والے (پروموشن )ادارے، مالیاتی ادارے، تربیتی ادارے، تحقیق/ڈیٹا/دستاویزی ادارے، تعلیمی ادارے، کوالٹی اشورینس باڈیز، ڈویلپمنٹ اتھارٹیز، کونسلز/کمیشنز/کمیٹیاں، ٹرسٹ/فاؤنڈیشنز، ایگزیکٹو ایجنسیاں، سیکورٹی/انفورسمنٹ باڈیز، سائنسی تحقیقی ادارے اور دیگر شامل تھے۔

تنظیم نو کے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے جیسا کہ منظور کیا گیا تھا، پی ٹی آئی کی کابینہ نے عملدرآمد کے منصوبے کی منظوری بھی دے دی تھی، تاہم بیوروکریسی کی مزاحمت کی وجہ سے وہ پورا نہیں ہو سکا۔

ڈاکٹر عشرت حسین نے مایوس ہوکر پی ٹی آئی حکومت کو خیرباد کہہ دیا تھا کیونکہ ان کا بڑا اصلاحاتی کام کابینہ سے منظور ہونے کے باوجود اس وقت کی حکومت کی سیاسی مرضی کے فقدان کی وجہ سے مکمل نہیں ہو سکا۔

2021 میں حکومت کو بتایا گیا تھا کہ انتقال اختیارات کے باوجود وفاقی ملازمین کی تعداد میں اضافہ ہوا جیسا کہ اعداد و شمار کے مطابق 17-2016 میں ایک لاکھ 37 ہزار نئے آنے والوں میں اچانک اضافہ ہوا۔

پی ٹی آئی حکومت کو ڈاکٹر عشرت حسین نے بتایا تھا کہ 11-2010 میں وفاقی ملازمین کی کل تعداد 8 لاکھ 29 ہزار تھی اور یہ تعداد 17-2016 تک کافی حد تک مستحکم رہی جب ایک لاکھ 37 ہزار نئے آنے والوں میں اچانک اضافہ ہوا جس سے کل تعداد 9 لاکھ 66 ہزار ہوگئی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ 16 ہزار نئی بھرتیوں میں سے زیادہ تر (85 فیصد) وفاقی حکومت (سیکرٹریٹ اور منسلک محکموں) میں ہوئیں جبکہ خود مختار اداروں میں اضافہ 21 ہزار تھا۔

شہباز شریف حکومت کی آخری کفایت شعاری کمیٹی کی طرح پی ٹی آئی حکومت کی ٹاسک فورس برائے اصلاحات نے بھی ایک سال یا اس سے زائد عرصے سے خالی پڑی ہوئی 71 ہزار آسامیوں کو ختم کرنے کی سفارش کی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ شہباز شریف حکومت نے بھی اس سفارش کو نظر انداز کیا اور حال ہی میں اسے وزیر خزانہ کے ماتحت نئی کمیٹی کے حوالے کر دیا۔

مزید خبریں :