Time 23 ستمبر ، 2024
پاکستان

پارلیمان کی قانون سازی سپریم کورٹ کے فیصلوں سے بالاتر ہے، فیصلے کےبعد بھی ابہام ہے: وزیرقانون

پارلیمان کی قانون سازی سپریم کورٹ کے فیصلوں سے بالاتر ہے، فیصلے کےبعد بھی ابہام ہے: وزیرقانون
آج کے فیصلے کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ آئین دوبارہ تحریر کیا گیا ہے، کسی ایم این اے کا یہ کیس نہیں رہا کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں: اعظم نذیر تارڑ— فوٹو:پی آئی ڈی

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے  سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر ردعمل میں کہا ہے کہ  فیصلہ آنے کے باوجود قانونی سوال موجود ہے جو معاملہ ہے اس نے ملکی قانون کے مطابق طے ہونا ہے اور پارلیمان کی قانون سازی سپریم کورٹ کے فیصلوں سے بالاتر ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھاکہ قانون سازی پارلیمان کا حق ہے، عدالتی فیصلے پر رائے دی جاسکتی ہے، آزاد امیدوار نے 3 دن میں کسی جماعت میں شامل ہونا ہوتا ہے، کس نے مقدمہ کیا، کیا استدعا ہے اس کو دیکھا جاتا ہے لیکن وہ پارٹی فریق نہیں تھی، نہ وہ پارٹی الیکشن کمیشن گئی، وہ پارٹی پشاور ہائیکورٹ بھی نہیں گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ فیصلے پر سوالات کھڑے ہوئے ہیں جن دو ججز نے اختلافی نوٹ لکھا انکےبارے میں بھی سختی سےلکھا گیا ہے، ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ عدالت میں سب جج برابر ہیں، یہ کوئی فورس نہیں ہے،کوئی چین آف کمانڈ نہیں ہے، یہ عدالت ہے اور مجھے اس بات کا ضرور افسوس ہے کہ فیصلے میں کچھ زیادہ سخت لکھا گیا ہے۔

ان کا کہناتھاکہ  تفصیلی فیصلہ آنے کے باوجود قانونی سوال موجود ہے جو معاملہ ہے اس نے ملکی قانون کے مطابق طے ہونا ہے، موجودہ قوانین کے مطابق یہ سیٹیں کیسے ایلوکیٹ ہونی ہیں اس کا جواب فیصلے میں نہیں ہے، الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے۔

وزیرقانون کا کہنا تھاکہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ پشاور ہائیکورٹ گیا، وہاں پانچ جج صاحبان نے فیصلہ دیا،  کبھی ایم این ایز کا یہ کیس نہیں رہا کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں، انہوں نے اپنے حلف نامے دیے کہ ہم سنی اتحاد کونسل سے ہیں، سماعت میں دو ہی پوائنٹس تھےکہ سنی اتحاد کونسل کو سیٹیں مل سکتی ہیں یانہیں، آئین کی تشریح اس طرح نہیں ہونی چاہیے کہ اس کی ہئیت ہی بدل جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کا جائزہ لیا تھا، فل کورٹ نے کہا تھا پریکٹس اینڈ پروسیجر کے فیصلے میں پارلیمان کا استحاق تسلیم کیا، فل کورٹ نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس میں کوئی ترمیم یا اضافہ نہیں ہوسکتا، قانون میں ترمیم یا اضافہ کرنا پارلیمان کا اختیار ہے،پارلیمان نہ ہو تو صدر آرڈیننس جاری کرسکتا ہے، یہ کہا گیا ہے کہ جو کیس پہلے دائر ہو وہ پہلے لگنا چاہیے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ تفصیلی فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ایک بار پھر خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیا گیا۔

سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق الیکشن رول 94 خلاف آئین قرار دے کر کالعدم کردیا۔ عدالت نے قراردیا کہ الیکشن رول 94 خلاف آئین اور غیرمؤثر ہے، رول 94 الیکشن ایکٹ کے آرٹیکل 51 اور 106 کے منافی ہے۔

مزید خبریں :