14 نومبر ، 2024
دنیا بھر میں گزشتہ 30 برسوں کے دوران ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد دوگنا اضافے سے 80 کروڑ سے زائد ہوگئی ہے اور پاکستان اس مرض سے متاثر چوتھا بڑا ملک ہے۔
یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔
جرنل لانسیٹ میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ 1990 سے 2022 کے دوران دنیا بھر میں بالغ افراد میں ذیایبطس کی شرح 7 سے بڑھ کر 14 فیصد ہوگئی، غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
NCD-RisC کے سائنسدانوں نے عالمی ادارہ صحت کے ساتھ ملکر کام کیا اور مختلف ممالک میں 18 سال یا اس سے زائد عمر کے 14 کروڑ افراد پر ہونے والی ایک ہزار تحقیقی رپورٹس کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا۔
انہوں نے مختلف ٹولز استعمال کرکے مختلف ممالک اور خطوں میں ذیابیطس کے پھیلاؤ اور علاج کا موازنہ کیا۔
ذیابیطس ایسا دائمی مرض ہے جس کے شکار افراد کا لبلبلہ مناسب مقدار میں انسولین تیار نہیں کرپاتا۔
ذیابیطس کو کنٹرول نہ کیا جائے تو بلڈ شوگر کی سطح میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے جس سے جسم کے مختلف اعضا بالخصوص اعصاب اور خون کی شریانوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
ذیابیطس ٹائپ 1 ایک آٹو امیون مرض ہے جس کے دوران جسم خود لبلبے کے ان خلیات کو تباہ کردیتا ہے جو انسولین تیار کرتے ہیں جبکہ ذیابیطس ٹائپ 2 میٹابولک عارضہ ہے جس کے دوران جسم انسولین کو درست طریقے سے استعمال نہیں کرپاتا۔
ذیابیطس کے 95 فیصد سے زائد مریضوں میں ذیابیطس ٹائپ 2 کی تشخیص ہوتی ہے۔
ذیابیطس ٹائپ 1 کے برعکس ٹائپ 2 کی روک تھام ممکن ہے۔
زیادہ جسمانی وزن، ناقص غذائی عادات اور جسمانی سرگرمیوں سے دوری سمیت جینیاتی عناصر سے ذیابیطس ٹائپ 2 سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ دنیا میں 50 فیصد سے زیادہ ذیابیطس کے مریض 4 ممالک میں سامنے آئے ہیں۔
2022 میں ایک چوتھائی سے زیادہ (21 کروڑ 20 لاکھ) مریض بھارت میں رہائش پذیر تھے، 14 کروڑ 80 لاکھ چین، 4 کروڑ 20 لاکھ امریکا اور 3 کروڑ 60 لاکھ مریضوں کا تعلق پاکستان سے تھا۔
انڈونیشیا اور برازیل میں بالترتیب ڈھائی کروڑ اور 2 کروڑ 20 لاکھ کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے۔
موٹاپے کی شرح اور معمر آبادی بڑھنے سے دنیا بھر میں ذیابیطس ٹائپ 2 کے پھیلاؤ کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔
محققین نے بتایا کہ معذوری اور دیگر سنگین اثرات کے باعث یہ ضروری ہے کہ صحت کے لیے مفید غذا اور ورزش کے ذریعے ذیابیطس کی روک تھام کی جائے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ اس حوالے سے بہتر پالیسیوں کی ضرورت ہے خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک میں صحت کے لیے نقصان دہ غذاؤں کا استعمال محدود کرنا چاہیے، مفید غذاؤں کی قیمتوں میں کمی لانی چاہیے اور ورزش کے مواقعوں کو بڑھانا چاہیے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بلڈ شوگر کی سطح میں کمی لانے والی مؤثر ادویات کی دستیابی کے باوجود مختلف ممالک کے رہائشیوں کو ان تک رسائی حاصل نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امیر ممالک میں تو علاج کی شرح میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی ہے مگر متوسط اور غریب ممالک میں حالات بگڑ رہے ہیں۔
اس کے نتیجے میں 2022 میں 30 سال یا اسے زائد عمر کے 44 کروڑ 50 لاکھ ذیابیطس کے مریضوں کو علاج تک رسائی حاصل نہیں ہوئی۔
علاج کی عدم دستیابی سے زندگی بھر کے لیے مختلف پیچیدگیوں بشمول امراض قلب، گردوں کے مسائل، بینائی سے محرومی اور دیگر کا خطرہ بڑھتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اڈہانوم گیبریئس نے تحقیق کے نتائج کے حوالے سے کہا کہ ہم نے گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران ذیابیطس کے کیسز کی شرح میں تشویشناک اضافہ دیکھا ہے اور ایسا موٹاپے، نقصان دہ غذاؤں کے استعمال اور جسمانی سرگرمیون سے دوری کے باعث ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ عالمی سطح پر ذیابیطس کو کنٹرول کرنے کے لیے دنیا کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔