19 فروری ، 2025
موجودہ عہد میں حیران کن طور پر لوگ تیزی سے قبل از وقت بڑھاپے کے شکار ہو رہے ہیں اور اب اس کی ایک اہم وجہ دریافت ہوئی ہے۔
امریکا کی براؤن یونیورسٹی کے مطابق ہماری غذائی عادات ہمیں قبل از وقت بڑھاپے کا شکار بنا رہی ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ لڑکپن یا نوجوانی میں ہماری غذائی عادات حیاتیاتی عمر کی رفتار پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
خیال رہے کہ ویسے تو ہر فرد کی عمر کا تعین تاریخ پیدائش (کرانیکل ایج) سے کیا جاتا ہے مگر طبی لحاظ سے ایک حیاتیاتی عمر (بائیولوجیکل ایج) بھی ہوتی ہے جو جسمانی اور ذہنی افعال کی عمر کے مطابق ہوتی ہے۔
جینز، طرز زندگی اور دیگر عناصر اس حیاتیاتی عمر پر اثرات مرتب کرتے ہیں اور یہ عمر جتنی زیادہ ہوگی مختلف امراض کا خطرہ بھی اتنا زیادہ بڑھ جائے گا۔
تحقیق کے مطابق اگر لڑکپن یا نوجوانی میں زیادہ کھانے سے جسمانی وزن بڑھ جائے تو قبل از وقت بڑھاپے کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ رات کو تاخیر سے کھانے کی عادت سے جسم کی اندرونی گھڑی کے افعال پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس سے موٹاپے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ لڑکپن یا نوجوانی میں ہمارے جسم کی نشوونما عمر بھر کے لیے اثرات مرتب کرتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہماری نیند اور کھانے کے اوقات اس حوالے سے اہم ہوتے ہیں۔
اس سے قبل بھی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ نیند اور غذائی رویے جسم پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔
اب نئی تحقیق میں شامل محققین نے بتایا کہ ہمارا تحقیقی کام کچھ مختلف ہے کیونکہ ہم نے زیادہ گہرائی میں جاکر کام کیا۔
اس تحقیق میں 12 سے 18 سال کی عمر کے 51 افراد کو شامل کیا گیا اور جسمانی وزن کی بنیاد پر انہیں 3 گروپس میں تقسیم کیا گیا۔
ان سب پر نیند اور غذاؤں سے متعلق مختلف تجربات کیے گئے اور انہیں ایک ہی جگہ 11 دن اور 10 راتوں تک رکھا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ نیند اور غذائی عادات میں تبدیلیوں سے جسم کی اندرونی گھڑی کے افعال میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں اور موٹاپے کا خطرہ بڑھ گیا۔
محققین نے بتایا کہ یہ پہلے سے معلوم ہے کہ جسمانی گھڑی بھوک اور میٹابولزم پر اثرات مرتب کرتی ہے اور اب ہم نے دریافت کیا کہ اس سے حیاتیاتی عمر میں بھی تیزی سے اضافہ ہونے لگتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس تحقیق میں پہلی بار ثابت کیا گیا کہ ہماری غذائی عادات بھی جسم کی اندرونی گھڑی کے افعال کو ریگولیٹ کرتی ہیں۔
محققین نے تسلیم کیا کہ نتائج کی مکمل تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل Proceedings of the National Academy of Sciences میں شائع ہوئے۔