Time 25 فروری ، 2025
پاکستان

’ایک نوٹیفکیشن کیلئے سب بیٹھ گئے تھے یہ تو ہماری حالت تھی‘، سپریم کورٹ میں جنرل (ر) باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا تذکرہ

’ایک نوٹیفکیشن کیلئے سب بیٹھ گئے تھے یہ تو ہماری حالت تھی‘، سپریم کورٹ میں جنرل (ر) باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا تذکرہ
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون نہیں تھا، سپریم کورٹ کی ہدایات پرپارلیمنٹ نےآرمی چیف کی توسیع کے لیے قانون سازی کی: جج آئینی بینچ/ فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس میں آئینی بینچ کے جج نے دوران سماعت سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمرباجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کا حوالہ دیا۔ 

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ 

سماعت کے دوران جسٹس امین الدین نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں بھارت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں ملٹری ٹرائل کے خلاف آزادانہ ٹربیونل میں اپیل جاتی ہے، بھارت میں اپیل کاحق پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے خود دیا یا عدالتی ہدایات تھیں؟

اس پر بانی پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے جواب دیا مجھے اس بارے میں علم نہیں ہے۔ 

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے کلبھوشن یادیو کی مثال موجود ہے، کلبھوشن کو خصوصی قانون سازی کے ذریعے اپیل کا حق دیا گیا، اپیل کا حق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے سبب دیا گیا۔ 

اس دوران جسٹس نعیم اختر نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس کا بھی تذکرہ کیا۔

جسٹس نعیم نے کہا کہ سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیس بھی موجود ہے،  آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون نہیں تھا، سپریم کورٹ کی ہدایات پرپارلیمنٹ نےآرمی چیف کی توسیع کے لیے قانون سازی کی۔ 

اس موقع پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ اس وقت ایک نوٹیفکیشن کے لیے سب سرجوڑ کر بیٹھ گئے تھے،  یہ تو ہماری حالت تھی۔ 


مزید خبریں :