05 مارچ ، 2025
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس میں ریمارکس دیتےہوئے جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آرمڈ فورسز عدلیہ کا حصہ نہیں، کسی عدالتی فیصلےمیں نہیں لکھا کہ ملٹری کورٹ عدلیہ ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی جس دوران سپریم کورٹ بار کے سابقہ عہدیداران کے وکیل عابد زبیری نے دلائل دیے۔
آئینی بینچ کے سامنے اپنے دلائل میں عابد زبیری نے کہا ایف بی علی 1965کی جنگ کے ہیرو تھے جن پر ریٹائرمنٹ کے بعد اپنےآفس پر اثر رسوخ کا الزام لگا، ایک ریٹائرڈ شخص کیسے اپنا آفس استعمال کر سکتا ہے؟
عابد زبیری نے کہا کہ جنرل ضیاء الحق نے ایف بی علی کا ملٹری ٹرائل کیا اور پھر جنرل ضیاءالحق نے ہی 1978 میں ایف بی علی کوچھوڑ دیا، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے جو کام ایف بی علی کرنا چاہ رہے تھے وہ ضیاءالحق نے کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آرمی ایکٹ میں ملٹری ٹرائل کے لیے مکمل طریقہ کارفراہم کیا گیا ہے، طریقہ کار میں بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے البتہ آرمی ایکٹ میں فراہم طریقہ کار پر عمل نہ کرنا الگ بات ہے، طریقہ کار پر عمل نہ ہو تو دستیابی کوئی فائدہ نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ ملٹری کورٹ پر 2 اعتراض ہیں، ایک اعتراض ملٹری ٹرائل غیر جانبدار نہیں ہوتا، دوسرا اعتراض ٹرائل کرنے والوں پر قانونی تجربہ نہ ہونے کا الزام لگایا گیا، اگر ملٹری کورٹ جوڈیشری ہے تو پھر وہ عدلیہ ہے، اس پر وکیل عابد زبیری نے کہا کہ ملٹری کورٹ ایگزیکٹو کا حصہ ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ملٹری کورٹ پرغیر جانبدارنہ ہونا اور قانونی تجربہ نہ ہونےکے الزامات لگائے گئے ہیں، آرمی کا کیا کام ہوتا ہے؟ آرمی کے کام میں ایگزیکٹو کہاں سے آگیا؟ اس پر عابد زبیری نے جواب دیا فوج کا کام سرحد پر لڑنا ہے، جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے فوج کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا آپ ملٹری کورٹ کو تسلیم کرتے ہیں؟ اگر تسلیم کرتے ہیں تو نتائج کچھ اور ہوں گے، جسٹس منیب اختر نے ملٹری کورٹ کو عدلیہ نہیں لکھا، آج تک جتنےفیصلےہوئےکسی میں بھی ملٹری کورٹ سےمتعلق کلیئریٹی نہیں ہے۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ سیکشن ٹو ڈی میں ملٹری کورٹ نہیں لکھا، لکھاہےکہ جرم پرٹرائل ہوگا لیکن ٹرائل کا فورم نہیں لکھا، شواہد ہوں تو انسداد دہشت گردی عدالتیں بھی سزائیں دیتی ہیں اس موقع پر عابد زبیری نے کہا ملٹری تنصیبات پرحملوں کے معاملے پر ترمیم کرکے ملٹری ٹرائل میں شامل کرلیاگیا، جسٹس حسن رضوی نے کہا حملےتو اب بھی ہورہےہیں،گزشتہ روز بنوں کینٹ میں حملہ ہوا۔
جسٹس علی مظہر نے ریمارکس دیے پہلے ملٹری کورٹ کو جوڈیشری تسلیم کریں، پھرعدلیہ سے الگ کرنےکی بات کریں، آرمڈ فورسز عدلیہ کا حصہ نہیں ہیں، کسی عدالتی فیصلےمیں نہیں لکھا کہ ملٹری کورٹ عدلیہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ قانون میں ملٹری کورٹ نہیں،کورٹ مارشل کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
وکیل عابد زبیری نے دلائل دیے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل صرف ان سویلنز کا ہوسکتا جو فوج کا حصہ ہوں، آرٹیکل 10 اے اور آرٹیکل 4 کی موجودگی میں سویلنز کا کورٹ مارشل ممکن نہیں، سیکشن ٹوڈی کے تحت ملزمان پر آرٹیکل8کی ذیلی شق 3 اےکا اطلاق نہیں ہوتا۔
بعد ازاں آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔