Time 15 اپریل ، 2025
صحت و سائنس

لوگوں وہ عام ترین عادت جو کینسر جیسے جان لیوا مرض کا شکار بناتی ہے

لوگوں وہ عام ترین عادت جو کینسر جیسے جان لیوا مرض کا شکار بناتی ہے
ایک تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / فائل فوٹو

کینسر موجودہ عہد کا ایسا جان لیوا مرض ہے جو بہت تیزی سے جوان افراد میں پھیل رہا ہے۔

کینسر کے بیشتر کیسز میں لوگوں کی ایک بہت عام عادت انہیں اس موذی مرض کا شکار بناتی ہے اور وہ ہے تمباکو نوشی کرنا۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

یالے کینسر سینٹر کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 2023 میں امریکا میں کینسر کے لگ بھگ 50 فیصد مریض تمباکو نوشی کی تاریخ رکھتے تھے جبکہ 15 فیصد تشخیص کے وقت تمباکو نوشی کرتے تھے۔

اس تحقیق میں امریکا کے نیشنل کینسر ڈیٹابیس کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا اور یہ دیکھا گیا کہ مریضوں میں کتنے افراد تمباکو نوشی کے عادی تھے۔

تحقیق کے مطابق تمباکو نوشی سے کینسر کی مختلف اقسام بشمول پھیپھڑوں، منہ، گلے، غذائی نالی اور جگر کے کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ امریکا میں کینسر کے ہر 5 میں سے ایک مریض تمباکو نوشی کے باعث اس موذی مرض کا شکار ہوا اور اس وقت امریکا کی 12 آبادی تمباکو نوشی کرتی ہے۔

اس تحقیق میں ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی اور مریضوں سے تمباکو نوشی کی تاریخ یا اس لت کو جاری رکھنے کے بارے میں تفصیلات حاصل کی گئیں۔

2023 میں کینسر کے 16 لاکھ مریضوں کی تفصیلات ڈیٹابیس میں شامل کی گئی تھیں جن میں سے لگ بھگ 97 فیصد نے تمباکو نوشی کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔

محققین نے بتایا کہ علاج کے مؤثر ہونے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کوئی فرد تمباکو نوشی سے جڑے کینسر کا شکار ہے یا نہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ اس تحقیق کے نتائج طبی ماہرین کے لیے بہت اہم ہیں خاص طور پر اس وقت جب کینسر کی مخصوص اقسام کا علاج کر رہے ہوں۔

مثال کے طور پر اگر پھیپھڑوں کے کینسر کا سامنا کسی ایسسے فرد کو ہو جو ہمیشہ تمباکو نوشی سے دور رہا ہو، اس کا کامیاب علاج جینیاتی میوٹیشنز کو ہدف بناکر ممکن ہے۔

تحقیق کے مطابق 2023 میں امریکا کے 47 فیصد مریض یا تو ماضی میں تمباکو نوشی کرتے رہے تھے یا اب بھی کر رہے تھے۔

محققین نے بتایا کہ تمباکو نوشی کی عادت سے جان چھڑانے سے نہ صرف مریضوں کا علاج آسان ہو جاتا ہے بلکہ ادویات کے مضر اثرات اور پیچیدگیوں کا خطرہ بھی گھٹ جاتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل JAMA Oncology میں شائع ہوئے۔

مزید خبریں :