25 اپریل ، 2025
سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس ظفر راجپوت نے غیر ملکی شہری کو رہائش فراہم کرنے پر ہوٹل منیجر کو دھمکیوں کے کیس میں پولیس انسپکٹر کو طلب کر لیا۔
غیر ملکی باشندوں کو رہائش فراہم کرنے پر پولیس کی ہوٹل منیجر کو مبینہ دھمکیاں دینے کے کیس کی سماعت سندھ ہائیکورٹ میں ہوئی۔
وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا ہوٹل مالک کو کہا گیا اگر چینی باشندوں کو رہائش فراہم کی تو کارروائی کی جائے گی، جبکہ پولیس کا مؤقف تھا کہ ہوٹل منیجر کو ہراساں نہیں کیا گیا۔
جسٹس ظفر راجپوت نے ریمارکس دیے پولیس کے کرتوت ہی ایسے ہیں کہ ان پر یقین کرنا مشکل ہے، ایس ایچ او کہاں ہے، اس نے اس الزام کے بارے میں کیا کہا ہے؟
وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا ایس ایچ او کا بیان ریکارڈ پر ہے اس کا کہنا ہےکہ ہوٹل منیجر کو ملاقات کیلئے بلایا تھا، جس پر عدالت نے کہا ریکارڈ پر سب انسپکٹر عبد القیوم کا بیان ہے، کسی اور کے دستخط نہیں ہیں۔
وکیل کا کہنا تھا یہ بیان ایس ایچ او کی جانب سے عبد القیوم نے لکھا ہے، ایس ایچ او کا بیان سمجھا جائے، جس پر عدالت نے کہا ایس ایچ او کب سے اتنا بڑا افسر ہو گیا کہ اس کی جانب سےکوئی اور بیان داخل کرے، بیان کو ایس ایچ او کے بیان کی حیثیت سے پیش کرنے والوں نے غلط بیانی کی ہے۔
کمرہ عدالت میں موجود پولیس اہلکاروں اور سرکاری وکیل نے معذرت طلب کرلی، عدالت نے کہا یہاں بیٹھ کر معلوم ہو جاتا ہےکیسے ہوٹلوں میں کمرے بک کروائے جاتے ہیں اور کھانے منگوائے جاتے ہیں۔
جسٹس ظفر راجپوت کا کہنا تھا پولیس یا انٹیلی جنس اہلکار ہوٹل جاکر کسی کا بھی پاسپورٹ یا ریکارڈ چیک کر سکتے ہیں، سفید پوش منیجرز کو تھانے طلب کرنا اور لاک اپ کی دھمکیاں دینا کون سا قانون ہے؟ محکموں کا کام شہریوں کی حفاظت ہے، یہی ہراساں کرتے ہیں، کسی کا کاروبار تباہ ہو جائے، کسی کی عزت برباد ہو جائے انھیں خیال ہی نہیں ہے۔
یاد رہے کہ صدر میں واقع ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے پولیس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی۔
سندھ ہائیکورٹ نے انسپکٹر آغا معشوق علی کو حلف نامے کے ساتھ 14 مئی کو طلب کر لیا۔