14 مارچ ، 2012
اسلام آباد… سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس کی سماعت میں سیاست دانوں کو رقوم کی تقسیم کے الزامات مزید وسیع ہوگئے ہیں ، 2009ء میں حکومت پنجاب کو مبینہ طور پر گرانے کا معاملہ بھی عدالت میں آگیا، عدالت نے سیاست دانوں سے رقوم واپس لینے کا کمیشن بنانے کی متفرق درخواست پر فریقین کو نوٹس بھی جاری کردئے ۔ چیف جسٹس افتخارچودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمہ کی سماعت کی، اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایاکہ نصیراللہ بابر، اسلم بیگ ، اسد درانی کے کلاسیفائڈ بیانات میں کوئی چیز کلاسیفائڈ نہیں ہے، عدالت نے کہاکہ ان بیانات کو مشتہر کرنے سے متعلق آئندہ سماعت میں مناسب آرڈر کیا جائے گا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہاکہ ہم اپنے لوگوں کو بھی لتاڑ تو رہے ہیں لیکن ریاست کا مفاد بھی بہت اہم ہوتا ہے، عدالت نے سال 2009ء میں حکومت پنجاب بدلنے کیلئے آج کی ایک اخبار خبر کو پڑھااور اٹارنی جنرل کو اس پر توجہ دینے کا بھی کہا۔ خبرمیں دعویٰ کیا گیاہے کہ انٹیلی جنس بیورو کے سیکریٹ فنڈ سے 2009ء میں بڑی رقم نکال کرحکومت پنجاب کو گرانے کے لئے استعمال کی گئی، عدالت نے رائے مانگی تو سلمان راجا نے کہاکہ یہ واضح ہے کہ گیم میں کسی کا ہاتھ صاف نہیں، تاہم فوجی ادارے اور سویلین ادارے کی مداخلت ، الگ ایشوز ہیں،اس پر جسٹس خلجی عارف نے کہاکہ گالی بڑی ہو یا چھوٹی ، یہ گالی ہی ہوتی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ اب تو آئی بی کا نام آرہا ہے،اٹارنی جنرل بتائیں کہ ایجنسیوں کا سیاسی کردار کیسے ختم ہوسکتا ہے، عدالت آئی بی والی خبر کے اخباری مالک و متعلقہ افراد کو نوٹس جاری کردیا، چیف جسٹس نے کہاکہ سابق سربراہ آئی بی شعیب سڈل اچھے آفیسر تھے ، انہیں بلایا تو وہ سب کچھ صاف بتادیں گے، یونس حبیب نے اسلم بیگ اور اسد درانی کے بیانات پر جوابی بیان حلفی پیش کرتے ہوئے کہاکہ رقم کی تقسیم 1990ء میں پیپلز پارٹی کو اقتدار سے روکنے کیلئے ہوئی تھی، سپریم کورٹ نے سیاست دانوں سے رقوم واپس لینے کیلئے کمیشن کے قیام کی خاطریونس حبیب کی متفرق درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کردئے، اس میں اسلم بیگ ، اسد درانی کو بھی فریق بنایا گیا ہے ، عدالت نے یونس حبیب کو میڈیا پر بیان دینے میں محتاط رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 30 مارچ تک ملتوی کردی۔