پاکستان
14 اکتوبر ، 2013

موہنجودڑو تباہی کے دہانے پر، 20برس میں صفحہٴ ہستی سے مٹ جائے گا

 موہنجودڑو تباہی کے دہانے پر، 20برس میں صفحہٴ ہستی سے مٹ جائے گا

کراچی…محمد رفیق مانگٹ…موہنجودڑوتباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ،اگر اس کو بچانے کیلئے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ 20برس میں اس شہر کے آثار صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ وادی مہران کا یہ خوبصورت شہر سیم اور تھور کا شکار ہے۔برطانوی اخبار” ٹیلی گراف“ لکھتا ہے کہ تین ہزار قبل مسیح کادنیا کا واحد شہر موہنجودڑوکے آثار تباہی کے قریب ہے۔ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ 5ہزار سال پرانے اس شہر کے کھنڈرات کو سیم اور تھورتیزی سے تباہ کر رہا ہے ۔1922میں دریافت ہونے والے موہنجودرو کو ماہرین آثار قدیمہ نے 20ویں صدی کی سب سے بڑی دریافت قرار دیا گیا ۔اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے1980میں اس کو عالمی ورثے میں شامل کیا ۔ کبھی تباہ ہو نے والا یہ شہر دوبارہ خطرات سے دو چار ہے۔ اس کے گھروں کی مٹی کی بنی دیواریں،منصوبہ بندی سے بچھائی سڑکیں،غلے کی جگہیں ،غسل خانے اور نکاسی آب کا نظام اب حکومتی غفلت، عوام کی بے حسی، اور غیر ملکی سیاحوں میں دہشت گردی کے خوف کی وجہ سے خاک اوردھول بنتا جا رہا ہے۔ماہرینِ آثار قدیمہ نے اخبار کو بتایا کہ یہ شہر سیم و تھور کی وجہ سے تباہ ہو رہا ہے اگر اسے بچانے کا فوری انتظام نہ کیے گئے تو آئندہ بیس برس کے اند ر اندر یہ شہر صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔گزشتہ ہفتے بین الاقوامی ماہرین اور پاکستانی حکام اس سلسلے میں کراچی میں اکھٹے ہوئے جنہوں نے اس کو بچانے ، فنڈنگ اور آگاہی کے فروغ کے لئے منصوبہ بندی کی۔اب انہوں نے اس کے تحفظ کے لئے ایک انتہائی اہم پروگرام مرتب کیا اور یہ سروے بھی کیا کہ زیر زمین ابھی کتنا شہر ہے جسے قائم کرنا ہے اورایسے حصے جودریافت ہوئے مگر دفن ہوگئے اور وہ جگہیں جو زیادہ خطرے سے دو چار ہیں۔رپورٹ کے مطابق موسم گرما میں یہاں کا درجہ حرارت51سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے ،مون سون کی بارشیں، سیلاب ،نمی اور سردی زیر زمین پانی کی وجہ بنی اور سیم و تھور اینٹوں کو مٹی بنا رہے ہیں۔ سیلاب ، زلزلوں اور حکومتی فنڈز کی کمی نے اس جگہ کو نظر انداز کردیا اور اس کے تحفظ کے لئے350مزدرور اور تکنیکی عملے کی ضرورت ہے مگر جب اخبار کی ٹیم نے وہاں کا دورہ کیا تو صرف 16افراد دیواروں پر مٹی لگا رہے تھے۔یونیسکو ورثہ کے ماہرجواد عزیز کا کہنا کہ اسے بچانے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے جگہ کا دورہ کیا اور اینٹوں دیکھا ہے ، وہ ختم ہو رہی ہیں ،اسے بچانے کی اشد ضرورت ہے۔ معروف پاکستانی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر عاصمہ ابراہیم نے انتہائی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ کوئی ایسا ماہرین پر مشتمل ادارہ نہیں،گزشتہ دو برس سے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا جس صورت حال سے یہ شہر گزر رہا ہے ممکنہ 20سال تک یہ شہر قائم رہے۔رپورٹ کے مطابق کانسی دور(Bronze Age 1628 to 1472 BC) کا وحد بچ جانے والا یہ شہر سندھ کے لاڑکانہ کے مقام پر دریائے سندھ کے دائیں کنارے واقع ہے۔ وادی مہران کا یہ شہر تقریباً3ہزار قبل مسیح تھا، جس کے40ہزار سے زائد باشندے تھے۔


مزید خبریں :