29 مارچ ، 2012
اسلام آباد… سپریم کورٹ رینٹل منصوبوں کے خلاف از خود نوٹس کیس کا فیصلہ کل سنائے گی۔ فیصلہ چوہدری محمد افتخار نے تحریر کیا ہے ۔ رینٹل پاور منصوبوں کے حوالے سے فیصل صالح حیات کی درخواست پر متعدد سماعتوں کے بعد 14دسمبر2011کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ واضح رہے کہ 14دسمبر 2011 کو ہونے والی سماعت میں ریمارکس دیتے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا تھا کہ ہوئے کہا ہے کہ رینٹل لانے کی بجائے آئی پی پیز کو ہی ایندھن دے دیا جاتا تو بجلی کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا۔ معاملات اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں مایوسی اچھی بات نہیں ہے اور ادارے چلتے ہیں ان کو چلنا چاہیے۔ اداروں کے چلنے میں ہی اس ملک کی نجات ہے،رینٹل منصوبوں سے صرف500 میگاواٹ بجلی حاصل کرنے کیلئے نہ جانے کیا کچھ کیا جارہا ہے اگر حکومت رٹ قائم کرنا چاہے تو یہ ہوجاتی ہے۔معاملات میں شفافیت ہونی چاہیے اور اداروں کو بھی اپنا کام کرنا چاہیے۔ رینٹل کے ٹیرف کا تعین کرنا نیپرا کی ذمہ داری تھی لیکن اس کے ہاتھ باندھ دیئے گئے۔ مقدمہ کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔ وزارت پانی وبجلی کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ رینٹل معاہدے نیپرا قواعد کے مطابق ہوئے اور ان پر ریگولیٹرز کے بھی دستخط موجود ہیں۔ نیپرا کے پاس رینٹل ٹیرف کالعدم قرار دینے کا اختیار حاصل ہے اس معاملے پر کابینہ کا اجلاس ہوا لیکن نیپرا نے رینٹل ٹیرف پر اعتراض نہیں کیا۔ رینٹل منصوبوں کے تحت تمام معاہدے کھلے مقابلے کے بعد کئے گئے اور تمام معاہدوں پر ریگولیٹری اتھارٹی کے دستخط موجود ہیں۔ منصوبوں کے حوالے سے کچھ بھی چھپایا نہیں گیاتمام دستاویزات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ آئی پی پیز کیلئے اسٹینڈرڈ مختلف ہے اور ان کا ٹیرف بھی رینٹل منصوبوں سے بہت کم ہے۔ اس موقع پر نیپرا کے وکیل نجم الحسن کاظمی نے کہاکہ رینٹل کمپنیوں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں میں لکھا گیا کہ اگر حکومت ان منصوبوں کو ایندھن فراہم کرنے میں ناکام رہی تو معاہدے کی مدت میں توسیع کردی جائے گی۔ ان کاکہنا تھا کہ دنیا بھر میں ایندھن کی فراہمی رینٹل کمپنیوں کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس موقع پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ رینٹل منصوبوں کے حوالے سے ٹیرف نیپرا کو بھیجے جانے سے قبل کابینہ نے منظور کرلیا تھا۔ اس موقع پر خواجہ طارق رحیم نے کہاکہ نیپرا کے پاس ٹیرف کالعدم قرار دینے کا اختیار موجود ہے اور نیپرا نے ٹیرف پر کابینہ اجلاس میں کوئی اعتراض نہیں کیا۔ خواجہ آصف نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ رینٹل پاور کی وجہ سے عام صارفین کو نقصان ہورہا ہے منصوبوں کا تھوک پر سودا کیا گیا اور عوامی مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ آئی پی پیز کمپنیاں ملک میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کیلئے تیار ہے لیکن حکومت تیار نہیں ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ کامعاملہ ہے اور اس پر پارلیمنٹ میں بات کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ معاملات اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں مایوسی اچھی بات نہیں ہے اور ادارے چلتے ہیں ان کو چلنا چاہیے۔ اداروں کے چلنے میں ہی اس ملک کی نجات ہے۔ عدالت نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے اور حکومتی وکیل کو اپنے دلائل تحریری طورپر عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کردی تھی۔