30 مارچ ، 2012
اسلام آباد… سپریم کورٹ میں آئی ایس آئی کی جانب سے رقم تقسیم کیس کی سماعت 23 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔ آج سماعت کی ابتداء میں اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے سپریم کورٹ میں بیان دیا کہ مہران بنک اور حبیب بنک کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ گم ہو گئی ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عام معاملہ نہیں ، رپورٹس کا بندوبست کریں ،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ آئی بی سربراہ سے بات کریں اور آدھے گھنٹے میں پنجاب حکومت گرانے کے لیے 27 کروڑ جاری کرنے کی وضاحت کریں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دونوں رپورٹس اہم ہیں جن میں یونس حبیب کی سرگرمیوں کا ذکر ہے انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ رپورٹس گم ہو گئیں ہیں تو خود ہی اس کا کوئی بندوبست کر لیں ، وہ خود ہی بہتر جانتے ہیں کہ علاج کیا ہے، عدالت بہت سنجیدہ ہے، یہ عام معاملہ نہیں، ، جسٹس طارق پرویز نے کہا کہ یہ رپورٹ عوامی اثاثہ تھی، کیسے گم ہو گئی ، جسٹس خلجی عارف نے استفسار کیا کہ رپورٹس کی گمشدگی کا ذمہ دار کون ہے؟رپورٹس دراصل اپنی جگہ موجود ہوں گی ، آپ چھپانا چاہ رہے ہیں،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ آئی بی کے سربراہ کو عدالت بلائیں اور انہیں کہیں کہ وہ پنجاب حکومت گرانے کے لیے27 کروڑ روپے جاری کرنے سے متعلق وضاحت کریں، یہ 1990 کا دور نہیں ، تمام ایجنسیوں کو عزت کا خیال کرنا چاہیے، انٹیلی جنس بیورو کے صوبائی بیورو بھی حکومت گرانے کے لیے کام کر رہے ہیں ، عدالت نے اٹارنی جنرل سے جواب طلب کیا تو انہوں نے پیر تک مہلت مانگ لی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں پندرہ دن دیئے گئے تھے ۔ آئی بی سربراہ کی تردید یا وضاحت نہ آئی تو اخبار کی خبر کو درست سمجھا جائے گا، آئی بی کے سربراہ کو پوچھ کر بتائیں کہ پیسے کس کو دیئے گئے، جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ ہاتھ وہ چھپاتا ہے جس کے ہاتھ گندے ہوتے ہیں۔وقفے کے بعد ہونے والی سماعت میں ڈی جی آئی بی نے عدالت کو بتایا کہ پی اے سی صرف اتنا پوچھتی ہے کہ رقم خرچ ہوئی ، ہم بتا دیتے ہیں، پی اے سی میں پورا رکارڈ نہیں پوچھا جاتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آخر ملک میں کون سے حالات خراب تھے کہ اتنی رقم خرچ کرنا پڑی، آپ پی اے سی کو بتا سکتے ہیں تو ہمیں کیوں نہیں۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر سربمہر لفافے میں تحریری بیان داخل کریں۔ مقدمے کی سماعت 23اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔