01 مارچ ، 2014
کندھ کوٹ…کندھ کوٹ کی انسداد دہشت گردی عدالت نے جیو نیوز کے شہید رپورٹر ولی بابر قتل کیس کا فیصلہ سنادیا ، دو اشتہاری ملزمان کو سزائے موت اورچارشریک ملزمان کو عمر قید کی سزاسنائی گئی ہے جبکہ ایک ملزم کوعدم ثبوت کی بناپر بری کردیا گیا ہے ۔ولی بابر کیس کا فیصلہ انکی شہادت کے تین سال بعد آیا،فیصلے کے مطابق جن دو اشتہاری ملزمان کو موت کی سزا سنائی گئی ان میں کامران عرف ذیشان اور فیصل موٹا شامل ہیں ، جبکہ فیصل محمود نفسیاتی، نوید پولکا، محمد علی رضوی، شاہ رخ عرف مانی کو عمرقید کی سزا سنائی گئی جبکہ ملزم شکیل کو بری کردیا گیا ہے ۔ولی خان بابر کو جنوری دو ہزار گیارہ میں کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا ، ولی خان بابر کیس انتہائی حساس نوعیت کی حیثیت اختیار کر گیا تھا جس کے باعث کیس کی سماعت پہلے کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت ، پھر کراچی سنٹرل جیل اور اس کے بعدصوبے سے باہر، کندھ کوٹ کی انسداد دہشت گردی عدالت کے تحت چلا اور آخری سماعتیں ڈسٹرکٹ جیل شکار پور میں ہوئیں ۔ولی بابر کے بھائی مرتضی بابر نے فیصلے پراطمینان کا اظہار کیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق شہید صحافت ولی خان بابرقتل کیس کاتین سال بعد فیصلہ سنادیا گیا ،اس عرصے میں مقدمہ کراچی سے کندھکوٹ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کیا گیا،عینی شاہد سمیت کیس سے منسلک6افراد اور ایک وکیل کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی جبکہ کیس کا ایک اشتہاری ملزم پولیس مقابلے میں ماراجا چکا ہے۔کیس کی سنگینی اورعدم تحفظ کی وجہ سے تین وکیل پیروی سے معذرت کی ۔ شہید صحافت ولی خان بابر کو13 جنوری 2011 کو شہید کیا گیا۔ قتل کا مقدمہ اسی روز تھانا سپرمارکیٹ میں درج ہوا ،جس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کا بھی اضافہ کیا گیا۔پانچ ملزمان فیصل محمود نفسیاتی ،نوید پولکا،محمد علی رضوی،شاہ رخ عرف مانی اور شکیل ملک گرفتار کئے گئے۔ ابتدائی سماعت اے ٹی سی کی جج خالدہ یاسین نے کی ،بعد میں مدعی کی درخواست پرمقدمہ غلام مصطفیٰ میمن کی عدالت میں منتقل کیا گیا۔ عینی شاہد حیدر علی نے شکیل ملک کے علاوہ تمام ملزمان کو شناخت کرلیا۔ ملزم شاہ رخ عرف مانی نے اقبال جرم کیا اور بتایاکہ واردات میں تمام ملزمان ملوث ہیں۔6گواہوں کو تفتیش اور سماعت کے دوران قتل کردیا گیا ،اشتہاری ملزم لیاقت 26 مئی 2012 کو پولیس مقابلے میں ما راگیاجبکہ اشتہاری ملزمان کامران عرف ذیشان اور فیصل موٹا تاحال قانون کے شکنجے سے باہر ہیں۔25اپریل 2011 کوحتمی چالان جمع ہونے کے بعد ملزمان کے وکیل کی غیر حاضری تاخیری حربہ بنی رہی۔محکمہ داخلہ سندھ کی درخواست پرولی بابر قتل کیس کی سماعت سینٹرل جیل میں بھی ہوئی ، تاہم عدم تحفط پر مدعی کے وکیل ارشد اقبال چیمہ بیرون ملک منتقل ہو گئے ،مزید دو وکلاء محمد خان برڑو اور مبشر مرزانے پیروی سے معذرت کرلی ۔ پیروی کی تیاری کرنے والے وکیل نعمت علی رندھاوا کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی جبکہ سرکاری وکیل عبدالمعروف ایڈووکیٹ کے گھر پر حملہ کیا گیا۔ سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے ولی خان بابر قتل کیس کے فیصلے کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالت کو2012 میں دی گئی 45دن کی مہلت ختم ہونے کے دو سال بعد حکومت سندھ نے مقدمے کوسنگینی کے پیش نظر کراچی سے کشمور کندھ کوٹ منتقل کیا۔اس عدالت میں ملزمان کے وکیل نے مقدمہ سیشن کورٹ منتقل کرنے کی درخواست دائر کی جو عدالت نے مسترد کردی گئی۔کئی سماعتیں زیر التواء رہنے کے بعد ملزمان کے وکیل سلمان مجاہد بلوچ ایڈووکیٹ اور سرکاری وکیل نے مقدمے کے حتمی دلائل دیئے۔انسداد دہشت گردی کندھکوٹ کی عدالت کے جج مشتاق لغاری نے 15 فروری کو تین سال بعد ولی خان بابر قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسے آج سنادیا گیا۔