دنیا
26 مارچ ، 2014

سعودی عرب کا محور اب امریکا نہیں،ایشیاء ہے؛ برطانوی اخبار

کراچی… محمد رفیق مانگٹ… برطانوی اخبار ”فنانشل ٹائمز“ نے امریکا اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی دوریوں کے متعلق اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکا کے پاس اب وقت ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ کھل کر بات کرے۔ ’پیٹرو ڈپلومیسی“ امریکی حمایت کی جگہ نہیں لے سکتی۔ سعودی عرب اب یقین کرچکا کہ اوباما انتظامیہ ناقابل یقین اور فیصلے کی قوت سے محروم ہے۔سعودی عرب کا غصہ نے عرب اسپرنگ تحریک سے جنم لیا۔ان کی امریکا کے خلاف چارج شیٹ کا آغاز مصر سے شروع ہوا۔سعودی عرب شام میں باغیوں کی حمایت کرتا ہے جس کا مقصد دمشق میں اس کے اتحادی کی حکومت کو ختم کرکے ایران کو کمزور کرنا ہے۔ سعودی عرب کا محور اب ایشیاء ہے۔امریکا کے علاوہ سعودی عرب کو کوئی سیکورٹی چھتری نہیں دے سکتا۔اخبار لکھتا ہے کہ رواں ہفتے براک اوباما سعودی عرب کے شاہ عبداللہ سے ملاقات کریں گے۔ یقیناً اس ملاقات کے دروان پروٹوکول کی شیرینی اور اعلامیوں کے دھویں میں شکوے و شکایات کے تیکھے تبادلے بھی ہوں گے۔ سعودی عرب اور امریکا کے چھ دہائیوں کی قربتوں کے بعد دونوں اتحادیوں میں ان چھ ماہ میں دوریاں ہوئیں۔شاہ عبداللہ کے والد عبد العزیز ابن سعود اور امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ سے استوار چھ دہائیوں کے تعلقات میں پہلی بار خدشات کو تقویت ملی اور ان کا اتحاد ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے امریکا اور مغرب کی ناکام واپسی ہے۔اب وہ اس خلا کو پر کرنے کیلئے کسی اور اتحادی کی تلاش میں ہیں،۔ امریکا نے حسنی مبارک کا تختہ الٹنے کی اجازت دی اور اخوان المسلمون کی مدد شروع کی جس کو سعودی عرب نے خطرہ سمجھا۔گزشتہ اگست امریکا نے ریاض کو جب شام میں کیمیائی گیس واقعے سے متعلق آگاہ کیا تو اس وقت بھی سعودی عرب سخت نالاں تھا۔گزشتہ موسم گرمامیں سعودی عرب نے مصر کی فوجی حکومت کیلئے 12ارب ڈالر کا امدای پیکیج دیا،تین ارب لبنان کی فوج کودیئے،جو امریکی اسلحے کی بجائے فرانسیسی ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ ہوئے۔سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات میں 1973میں عرب اسرائیلی جنگ میں بھی تناوٴ آیا۔ نائن الیون کے ہائی جیکروں میں19میں سے15کا تعلق سعوی عرب سے تھا لیکن تناوٴ کے باوجود تعلقات قائم رہے۔اوباما کا دورہ ہے لیکن سعودی عرب کا محور اب ایشیاء ہے۔ولی عہد شہزادہ سلمان نے چین اور جاپان کے دورے کیے اور بھارت اور انڈونیشیا سے بھی معاہدے کیے جس میں دفاعی تعاون بھی شامل ہے اور جوہری ملک پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید مضبوط بنایا۔ اوباما کو چاہیے کہ وہ شاہ عبداللہ کو قائل کریں۔


مزید خبریں :