پاکستان
12 مئی ، 2014

’امن کی آشا‘ میں فوج اور آئی ایس آئی ہمارے ساتھ تھیں، شاہ رخ حسن

’امن کی آشا‘ میں فوج اور آئی ایس آئی ہمارے ساتھ تھیں، شاہ رخ حسن

کراچی…جیو نیوز کے معروف اینکر کامران خان نے کہا کہ الزام لگاکر اسے ثابت بھی کرنا ہوتا ہے، اگر عمران خان کو سوال پوچھنے کا حق حاصل ہے تو ہمیں دلائل کے ساتھ جواب دینے کا حق بھی حاصل ہے، وہ جیونیوزکے پروگرام ”دھرنہ ورنہ “میں میزبان مسعود رضاسے گفتگوکررہے تھے۔کامران خان کا کہناتھا کہ ہم ایسے الزامات کے مدلل اور صحیح جوابات ان گنت بار دے چکے ہیں ، عمران خان کایہ بہت سنگین الزام ہے کہ جیو کو پچھلے چند مہینے کے دوران رقوم ملی ہیں جس سے ایجنڈا سیٹ ہوا ہے، ہم اس کا جواب دے رہے ہیں،اگر عمران خان جواب سے مطمئن نہیں ہیں تو خود ہی کوئی آزاد و خودمختار فورم تجویز کردیں جہاں ہم جواب دیں۔ جنگ اور جیو کسی بھی اسکروٹنی کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوگا۔ اگر جیو اور جنگ پر الزام ثابت ہوجاتا ہے تو تادیبی کارروائی ہو اور اگر نہ ثابت ہو تو عمران خان اپنے خلاف تادیبی کارروائی کا کہیں، کامران خان نے کہا کہ عمران خان سے قریبی تعلق کی وجہ سے جیو اور جنگ کو الزامات سہنے پڑے کہ یہ ادارہ تحریک انصاف کا حامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے الیکشن کمیشن اور انتخابی نظام کے بار ے میں بڑے جائز مطالبات ہیں، اس پر حکومت اور کسی جماعت کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ پروگرام میں گفتگوکرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار و معروف اینکر نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ مجھے بہت افسوس ہوا ہے کہ عمران خان جیسی شخصیت اب گلیوں کی زبان پر اتر آئی ہے، وہ بے بنیاد الزامات لگارہے ہیں، انا پرستی اور بچگانہ پن کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہمیں ان سے بڑی توقعات تھیں کہ یہ اچھی سیاست لائیں گے، اچھی مثالیں قائم کریں گے مگر آج حد ہوگئی ہے۔ عمران خان نے سال بھر پہلے تک سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کوہیرو بنایا تھا آج انہیں زیرو بنادیا ہے۔ عمران خان مجھے غیرجانبدار کیئر ٹیکر کہتے تھے لیکن آج مجھ پر الزام لگارہے ہیں، چیف الیکشن کمشنر کے لئے بہت اچھی زبان استعمال کرتے تھے لیکن آج انہیں بھی زیرو بنادیا۔ نجم سیٹھی نے کہا کہ جیو کے ساتھ میرے جھگڑے چلتے رہے ہیں کہ آپ عمران خان کو یکطرفہ کوریج دے کر ہیرو بنارہے ہیں اور آج اسی ادارے کے اوپر انہوں نے اتنے گھٹیا الزام لگادیئے ہیں، عمران خان الزامات لگاتے ہیں مگر ثبوت نہیں دیتے، عمران خان نے پہلے عدالتوں پر تنقید کی بعد میں معافی مانگ لی، عمران خان کو بہت سارے الزامات کے جوابات دینے ہوں گے، تنقید کرنا میڈیا کا کام ہے، سیاستدانوں کا کام جواب دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان کے پاس کوئی ٹیپ ریکارڈنگ ہے تو سب کو سنادیں۔ عمران خان کی سیاست اب سازش بنتی جارہی ہے۔ نجم سیٹھی نے کہا کہ عمران خان کو اب بہت سے سوالات کے جواب دینے پڑیں گے کہ آج یہ کیوں اپنے دوستوں کو دشمن بنائے بیٹھے ہیں اور کس کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں، عمران خان ذاتیات پرآ گئے ہیں، اگر ان کے کرتوتوں پر ہم ذاتیات پر اتر آئے تو اللہ ہی خیر کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسے ادارے ہیں جنہیں جیو سے، نواز شریف اور ہمارے جیسے آزاد اینکرز سے تکلیف ہورہی ہے اور انہوں نے یہ سب کرنے کا عمران خان کو گرین سگنل دیا ہے۔جنگ گروپ کے ایم ڈی شاہ رخ حسن نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت افسوس ہے کہ ہمارے اوپر باہر سے پیسے لینے کا الزام لگایا گیا ہے اوریہ ایسے آدمی نے لگایا ہے جن کے علم میں ہے اور جن کے قریبی ساتھیوں کے علم میں امن کی آشا کی ہر چیز ہے بلکہ وہ ہمارے ساتھ رہے ہیں۔ امن کی آشا ایک ٹریک ٹو اقدام ہے جنگ گروپ اور ٹائمز آف انڈیا کا، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جو مشکلات ہیں، جو ان کے تنازعات ہیں ان کو حل کرنے کے لئے، حکومت کی مدد کرنے،دونوں ممالک میں امن، معاشی تعاون اور پاکستان کی معیشت بڑی کرنے کے لئے ہے۔ یہ ہم نے کوئی خفیہ، رات کو بیٹھ کر نہیں سوچا تھا بلکہ ہم حکومت کے پاس گئے تھے اوروہاں جاکر ہم نے سارے اپنے تفصیلی پلان بتائے، ہم اس کے بعد آرمی کے پاس گئے، میجرجنرل اطہر عباس مجھے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا کے پاس لے کر گئے۔ جنرل پاشا سے میری تین گھنٹے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے تفصیلی سوالات پوچھے۔ انہوں نے کہا شاہ رخ صاحب یہ آپ کیوں کرنا چاہ رہے ہیں، کیا مقاصد ہیں، کہاں سے فنڈ آئیں گے، کون اس کے پیسے دے گا، کن چیزوں میں آپ ڈسکس کریں گے، ہم نے انہیں بتایا کہ ہم یہ اس لئے کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے ملک کو ایک ایسا پلیٹ فارم دینا چاہتے ہیں جہاں دشمنیاں ختم ہوں، ہمیں یہ برداشت نہیں ہوتا کہ ہماری پیاری فوج کے جوان سرحدوں پر جاکر، سر کریک، سیاچن میں جاکراپنی جان قربان کریں تو انہوں نے کہا کہ ان تنازعات کو آپ کس طرح آپ ہینڈل کریں گے۔ ہم نے کہا، ہم کشمیر پر بات کریں گے، پانی پر بات کریں گے، سیاچن، سر کریک سمیت تمام مسائل پر بات کریں گے،ہم سروے کرائیں گے۔ یہ باتیں سننے کے بعد جنرل پاشا کھڑے ہوئے، انہوں نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور انہوں نے کہا کہ شاہ رخ صاحب! امن کی آشا میں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ تو اگر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ فوج کو پتا نہیں یا تحفظات ہیں تویہ سراسر غلط ہے، میں یہ بھی بتاتاچلوں کہ جب ہم نے یہ شروع کیا تو ایک عام تاثر یہ تھا کہ فوج اس کی اجازت نہیں دیگی، ہمارے بھارتی پارٹنر ٹائمز آف انڈیا نے بھی کہا کہ آپ لوگ فوج کو کس طرح منائیں گے، یہ ہم نے اس وجہ سے کیا ہے کہ پاکستان کب تک اس معاشی بحران میں پھنسا رہے گا، کب تک ہماری فوج سرحد پر جاکر لڑتی رہے گی۔ عمران خان صاحب کے دو قریبی ساتھی اسد عمر اور شفقت محمود وہ امن کی آشا کا پہلے دن سے حصہ ہیں۔ شفقت محمود صاحب امن کی آشا کے پہلے سفیر برائے امن ہیں، امن کی آشاکے حوالے سے پاکستان اوربھارت میں جودوکانفرنسز ہوئیں اس میں اسد عمرکمیٹی کے رکن تھے۔ اس لئے عمران خان صاحب کے الزامات پر میں حیران ہوں۔ پیمرا نے سپریم کورٹ کا ایک میڈیا کمیشن بنا یاتھا جس کے دو ممبرز تھے، جاوید جبار صاحب تھے اور ایک ریٹائرڈ اسلم ناصر جج صاحب تھے سپریم کورٹ کے، ان کے پاس پیمرا کے چار یا پانچ انتہائی سینئروکلاء گئے اوریہ الزام لگایا کہ جنگ جیو ایک نارویجین این جی او سے پیسے لیتا ہے جو دوردرشن سے پیسے لیتے ہیں لہٰذا یہ انڈین ٹیلی ویژن دوردرشن جو ہے وہ ان کو کوئی بیس ملین پاؤنڈ اس نے دیئے ہیں۔ پھر سپریم کورٹ میں ہم گئے، سپریم کورٹ نے پیمرا کے چیئرمین کو بلایا اور ثبوت مانگے جس پر وہ مکرگئے۔ بعدمیں ان سب الزامات لگانے والوں کو سپریم کورٹ میں ہم سے معافی مانگنی پڑی۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ عمران خان صاحب جب سے ایک مخصوص چینل پر انہوں نے جاکر، جس کا صرف یہ کام ہے کہ جنگ گروپ کے خلاف جھوٹے الزامات لگائے، جس پر اسٹے آرڈر بھی آیا ہوا ہے، جب ہم نے ان سے گلہ کیا ، ہم نے کہا آپ ان کے پاس جاتے ہیں آپ ہم سے کیوں نہیں پوچھتے، ہم آپ کو ہر فورم، ہر پلیٹ فارم، ثبوت دینے کو تیار ہیں، آپ آڈیٹرز کرلیجئے، آپ اپنی مرضی کی کمیٹی بنالیجئے، آپ ہم سے آکر مل لیجئے، جس طریقے سے آپ کہیں گے ہم اپنے آپ کو اسکروٹنی کے لئے حاضر کرنا چاہتے ہیں، ہرپلیٹ فارم پر، ان کو ہم نے خط بھیجا، لیگل نوٹس بھیجا، انہوں نے کسی کا جواب نہیں دیا، لیکن ان کو شایداحساس تھا کہ یہ انہوں نے بڑی زیادتی کی ہے لہٰذا کچھ مہینے پہلے انہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر یہ کہا کہ امن کی آشا بہترین ایک بہترین اقدام ہے اور اس میں کیا حرج ہے کہ ایک میڈیا گروپ انڈیا سے دوستی کے لئے آگے بڑھ رہا ہے اور انہوں نے اسے بہت سراہا۔ لاہورمیں امن کی آشا تجارتی کانفرنس میں انہوں نے کھڑے ہو کر جنگ گروپ اور جیو کی امن کی آشا کے حوالے سے بے حد تعریف کی اور کہا کہ اگر میری حکومت آئے اور یقینا آئے گی تو انڈیا سے دوستی اور تجارت میری ترجیح ہوگی۔اس وقت تو ان کو کوئی بات بری نظر نہیں آئی، ہم عمران خان کو پاکستان اوربرطانیہ کی عدالتوں میں لیکرجائیں گے۔ ہندوستان تو دور کی چیز ہے، ہمیں کسی ملک سے ایک پائی نہیں ملی ہے، ہم سے برطانوی، امریکی حکومت نے رابطہ کیا اور کہا کہ ہم آپ کی کیا مدد کرسکتے ہیں اورہم نے کہا ہمیں کوئی مالی مدد کی ضرورت نہیں ہے، آپ اس کو سپورٹ کریں، اگر آپ سمجھتے ہیں ہم صحیح کام کررہے ہیں، اگر آپ سمجھتے ہیں اس میں پاکستان کا فائدہ ہے تو آپ اس کے اندر سپورٹ کیجئے، گورنمنٹ آف پاکستان کو بتایئے، منسٹری کو بتایئے اور وہ سب ہمیں بتاتے رہے کہ ہماری جب پرائم منسٹر سے میٹنگ ہوتی ہے، جب ہماری چیف آف آرمی اسٹاف سے میٹنگ ہوتی ہے، ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ امن کی ا?شا کے بارے میں کیا خیال ہے اور وہ سب کہتے ہیں including جنرل کیانی، یہ تو مجھے directly امریکا کے سفیر نے کہا کہ میں نے directly جنرل کیانی سے پوچھا کہ آپ کا امن کی آشا کے بارے میں کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا یہ خیال ہے کہ یہ زبردست چیز ہے اور ہم نے allow کیا ہے اور ہم permission دیتے ہیں جبھی تو یہ چل رہی ہے۔ یہ بھی میں شیئر کرنا چاہتا ہوں لوگوں سے اور یہ ہم نے بڑی detail میں ملٹری کے ساتھ بھی شیئر کیا ہے کہ جب امن کی آشا لانچ ہونے والی تھی تو ہم نے پہلی دفعہ، یعنی ہم نے نہیں انڈیپینڈنٹ ریسرچ ایجنسیز نے سروے کیا کہ پاکستان کے بارے میں انڈیا میں کیا تاثرات ہیں اور اس کے بعد ایک سال کے بعد وہی سوالات دوبارہ کیے گئے تو اس کے اندر ایک چینج تھا، ہر positive perception پاکستان کا improve ہوا، ہر percepton negativeجو ہے وہ decrease ہوا۔ اور صرف آپ اگر کشمیر کو لے لیں تو کشمیر کے بارے میں جب ہندوستانی لوگوں سے پوچھا گیا کہ کیا آپ لوگوں کو پتا ہے کہ پاکستان کا موقف کیا ہے کشمیر کے اوپر، کیا آپ کو پتا ہے کہ پاکستان کشمیر کو کیوں disputed سمجھتا ہے تو صرف چار فیصد نے کہا کہ ہاں ہمیں پتا ہے کہ پاکستان کا کیا پوائنٹ آف ویو ہے۔ بارہ مہینے کی compaining کے بعد ہماری جو campaining ہوئی ہے کشمیر پر، پانی پر، سیاچن پر، سرکریک پر، تمام disputes پر تو وہی سوال جب دوبارہ پوچھا گیا تو 425 فیصد increase آیا، یعنی چار فیصد سے سترہ فیصد انڈینز نے کہا کہ ہاں ہمیں پتا ہے کہ پاکستان کا کیا پوائنٹ آف ویو ہے اور ہمارا خیال ہے کہ ہندوستان کی گورنمنٹ کو پاکستان کی گورنمنٹ سے negotiate کرنا چاہئے اور settlement کرنا چاہئے، یہ facts and figures ہم نے میڈیا اور آئی ایس پی آر سے شیئر کیے اور کہا یہ دیکھیں ایک روپیہ خرچ کیے بغیر کس قسم کا چینج آیا ہے perceptions میں، انڈیا میں۔ یہ پاکستان کی نہیں بات کررہا، انڈیا کے جو لوگ ہیں ان کے اندر ایک بڑا چینج آیا پاکستان کے بارے میں۔ جب میں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کو یہfacts figures یہ ریسرچ دی تو انہوں نے کہا یہ تو امیزنگ ہے، ایسا کبھی ہوا ہی نہیں اور کیا آپ مجھے پوری ریسرچ بھیج سکتے ہیں تو ہم نے ان کو پوری ریسرچ لکھ کر بھیجی۔ یہ سب چیزیں عمران خان صاحب کے علم میں ہیں کیونکہ اسدعمر صاحب اس میں انوالو رہے ہیں، شفقت صاحب اس کے اندر انوالو رہے ہیں اور یہ سب چیزیں امن کی آشا کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، یہ فنڈنگ کے الزامات جو ہیں، کبھی یہ ہم سے کہتے تھے، اسی وجہ سے ہم سپریم کورٹ گئے کہ کبھی ہم سے کہا کہ یہ را سے پیسے لے رہے ہیں، کبھی کہا کہ یہ امریکا سے پیسے لے رہے ہیں، کبھی کہا یہ دور درشن سے پیسے لے رہے ہیں، تو آدمی کیا کرسکتا ہے، اگر کسی بھی آدمی پر کوئی الزام لگادے تو وہ غریب کیا کرے گا، وہ یہی کہے گا کہ بھئی یہی غلط ہے، یہی ہم نے عمران صاحب سے کہا، ہم نے کہا یہ غلط ہے، آیئے بیٹھ جائیں، وہ نہیں آئے، ہم نے نوٹس دیدیا، برا مانا۔ ہم نے کہا اپنی مرضی کی کمیٹی بنادیں، آڈیٹرز بٹھادیں، کسی فورم میں بٹھادیں اور یہ تحقیق کرلیجئے، نہیں مانتے تو پھر آدمی کیا کرے۔ جس کا دل چاہے جس کی عزت سے، سپریم کور ٹ گئے نا، سپریم کورٹ کا ججمنٹ آگیا اس کے اوپر۔ سپریم کورٹ کے اندر انہوں نے جاکر معافیاں مانگیں، یہ سب ان کے علم میں ہے، یہ خود اس کے بعد پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے کہا کیا ہوگیا اگر ایک میڈیا گروپ نے انڈیا سے دوستی کی مہم چلائی ہے، امن کی آشا۔ یہ ایک بہترین چیز ہے اور میں اس کو سپورٹ کرتا ہوں، یہ کچھ مہینے پہلے کی بات ہے تو اس وقت سے لے کر ابھی تک کیا ہوا، کیا چینج ہوا، یہ ایسی باتیں کہہ رہے ہیں جو بے بنیاد، جھوٹے الزامات ہیں، یہ جنگ گروپ پر الزامات ہیں، یہ جیو پر الزامات ہیں، یہ ان تمام سول سوسائٹی لیڈرز، ملٹری لیڈرز، بزنس مین جو امن کی آشا کے ساتھ انوالو ہیں اور میں آپ کو یہ بتاؤں کہ یہ صرف سویلینز نہیں کرتے رہے ہیں، یہ صرف میڈیا نہیں کرتے رہے ہیں، اس میں بے انتہا آرمی کے لوگ، نیوی کے لوگ، ڈپلومیٹ شامل ہوئے ہیں، ان سب پر یہ تہمت ہے اور جب یہ کورٹ میں جائیں گے تو یہ کس طرح ثابت کریں گے، یہ سوچتے نہیں کہ میں الزام لگا رہا ہوں کل کو ایک آدمی evidences دے گا کہ مجھ سے اس نے کتنی بات چیت کرنے کی کوشش کی، کتنی دفعہ جنگ گروپ اور جیو نے عمران خان کو اپروچ کیا۔ خان صاحب کیسی باتیں آپ کررہے ہیں، آپ آکر ہم سے مل لیجئے، آپ ایک گھنٹے کا پروگرام کرلیجئے، آپ آڈیٹرز وہ کردیجئے، آپ لیگل فرم کوئی اپائنٹ کرلیجئے، آپ سپریم کورٹ کا کوئی کمیشن بنادیجئے، ہماری ہر طرح سے اسکروٹنی کرلیں، وہ نہیں کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک مخصوص چینل پر جاتے ہیں وہاں jang bashingاور جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں، اس سے جاکر یہ واپس آئے تو یہ ایک سازش ہے جو ہمارے خلاف چل رہی ہے اور یہ اس کا willingly یا unwillingly حصہ بن گئے ہیں اور اب انہوں نے آکر publically وہ باتیں کہیں ہیں جو publically یہ اس کے خلاف لکھ رہے تھے، کبھی انہوں نے پچھلے تین سال سے جب امن کی آشا چل رہی ہے ایک دفعہ امن کی آشا کے خلاف نہیں بولا، صرف اب بولا، تعریف میں بولا، شامل ہوئے، تعریفیں کیں، نیشنل اسمبلی کے پلیٹ فارم پر، کانفرنسز میں لیکن آج انہوں نے آکر ایسی باتیں پہلی دفعہ کی ہیں، تو مجھے بہت افسوس ہے، میں بہت shocked ہوں، مجھے بڑا رنج ہے کہ عمران خان جیسے آدمی جب اتنی غلط بات کریں، اتنا سلینڈر کریں تو آدمی کہاں جائے گا۔اور جب یہ کورٹ میں جائیں گے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ انگلینڈ کے اندر، تو وہاں کس طرح یہ کریں گے جب فوج اس بات کو سمجھ سکتی ہے ہم ان کے پاس گئے ہم نے کہا ہمارے بہادر فوج کے لوگ مارے جارہے ہیں۔ شہیدہوئے جا رہے ہیں تو انہوں نے ہم سے ہاتھ ملایاکہا بھی ہے partnet with aman ki asha سب لوگوں کو شایدپتا نہیں ہے لیکن میں آج بتارہاہوں۔ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل اطہر عباس موجود تھے ہم تین لوگ موجود تھے اور یقینا وہ نوٹس بھی لے رہے ہوں گے۔ اس کے بعد ان سے کئی میٹنگز ہوئی اور سب چیزوں کی انہوں نے اجازت دی ہمارے لوگوں کا انڈیا جانا ، انڈیا سے لوگوں کا یہاں آنا، انڈیا کے جنرلز کا آنا ، انڈیا کے ایڈمرلز کاآنا،پرانے ڈی جی ”را“ کا آنا یہ کس طرح سے ہوا یہ اس طرح سے ہوا کہ حکومت وقت اور ملٹری دونوں نے کہا کہ امن کی آشا بہت اچھی چیزہے۔ پاکستان کے لیے فائدہ مند چیز ہے جنگ گروپ کے Credential Stalling Credentialہیں کوئی شک نہیں ہے، تب تو انہوں نے یہ اجازت دی ہمیں اگرہم کسی سے پیسے لے رہے ہوتے تو کیا ملٹری یا حکومت نیب یا کسی انویسٹی گیشن ایجنسی کو نہیں پتا چلتا کہ یہ پیسے آرہے ہیں اور ابھی میں پھر اعلان کررہا ہوں کہ ایک پائی نہیں لی ہے، انڈیا تودور کی چیز کسی ملک سے ایک پائی نہیں لی۔ مجھے بڑا دکھ ہے جب اتنے بڑے بڑے لیڈر عمران خان صاحب جن کو معلوم ہے کہ جو میں بات کہہ رہاہوں وہ سراسرغلط ہے وہ ایسی باتیں کررہیں۔ Political game man ship وہ شامل رہے ہیں ان کے لیفٹننٹ شامل رہے ہیں کیا وہ غلط شامل تھے تو I am very sorry میں بہت ہی جذباتی ہوگیا تھا اور یہ میرے لیے بہت emotional چیزہے کہ اس طرح کا الزام جنگ گروپ پر لگایا جائے۔ مسعود رضا نے سوال کیا اگر دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا امکان نہیں رہتا اور وہ اپنے دفاعی بجٹ لوگوں کی فلاح پر خرچ کریں تو خطے کو کیا فائدہ ہوگا جواب میں شاہ رحسن کا کہنا تھا کہ خطے کی پوری Life بدل جائے گی۔جب ہم یورپی یونین کے پاس گئے، امن کی آشا کی بات کی۔ انہوں نے کہا جب یورپی یونین نہیں بنی تھی تو ہمارا آپس کے اندر Tradeتھا ہم کسی پر انحصار نہیں کرتے، ہمارا آپس میں trade تھا 23فیصد اور آج77 فی صد ہے ہم کسی پر انحصار نہیں کرتے ہماری wealth internal lines رہتی ہے۔ پاکستان اور انڈیا تو دور کی چیز اس پورے خطے میں چار فیصد تجارت ہوتی ہے۔ پاکستان اورانڈیا کے درمیان one and half billion کی تجارت ہوتی ہے۔ یہ conservative estimate تھے بیس ملین روپے۔ پاکستان کے لیے Tow and half million تھے بیس ملین ٹریڈ بڑھ جائے تو آپ سمجھتے ہیں کیا ہوگا۔ پورے خطے میں استحکام آجائے گا۔ پاکستان اور انڈیا کے اندر جو عدم استحکام ہے ا س سے پورا خطہ غیر مستحکم ہوا وا ہے، ان کی معیشت shadeup ہورہی ہے اور ہماری اکانومی shadeupہورہی ہے، تو ایجوکیشن ،development health, poverty eliviation ان سب کے اندر ایک Paradigm تبدیلی آئے گی۔میںآ پ کو بتاؤں یہ سب جنگ اور نیوز کے اندرfacts and figuresکے ساتھ چھپ چکا ہے جو ہم نہیں دے رہے بلکہ یہ دنیا کی بہترین یونیورسٹی ہارورڈ سے تصدیق شدہ ہے اس کا سرٹیفکیٹ ہے کہ اتنے بلین روپے آپ خرچ کرتے ہیں اور یہwasteful expenditure ہے اور وہ ہی آپ پاکستان کے لوگوں پر خرچ کریں تو کس طرح سے سوشل ڈیولپمنٹ ہوگی۔کتنے اس اسکول اور پل بنیں گے، اسپتال بنیں گے اور ایہ سب چھپ چکا ہے اور یہ سب معلوم ہے پھر سمجھ میں نہیںآ رہا کہ اس کے باوجود کیوں حملہ کیا جارہا ہے۔ جب یہ اٹیک اس وقت نہیں کرتے جب آمنے سامنے ہوتے ہیں یہ تب ہوا جب حکومت کے پاس گئے اور حکومت نے کہا دو سو فیصد سپورٹ کریں گے، فوج کے پاس گئے انہوں نے کہا ہم امن کی آشا میں پارٹنر ہیں۔ ساری سیاسی جماعتوں کے پاس گئے، تمام بڑی جماعتیں ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اور سب اس کے فوائد پوچھ رہے ہیں، سارے انٹرنیشنل پلیٹ فارمز پر یعنی common wealthاورheads of Government میٹنگ کے اندر انہوں جنگ اور ٹائمز انڈیا کو بلایا۔ وہاں 65ملکوں کے سربراہ موجود تھے اور وہاں انہوں نے امن کی آشا کی تعریف کی۔ جہاں ذکر کیا جاتا ہے ایوارڈ ملتے ہیں اور یہاں اپنے لوگ سیاسی دکان چمکانے کے لیے یہ جانتے ہوئے کہ جو میں بول رہا ہوں یہ جھوٹ ہے بے بنیاد ہے میں الزام لگا رہاہوں۔ (سینئر صحافی تجزیہ کارافتخار احمد نے کہا کہ جہاں تک عمران خان کی تنقید کی بات کررہے ہیں جنگ اور جیو گروپ نے تفصیلی طور پر تمام الزامات کا جواب انگلش اردو دونوں زبانوں میں جاری کیا ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ صحافی آپ کی کٹھ پتلیوں کی طرح نہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کس عمران خان کو طالبان خان کس نے کہا اور ابھی جب میں ٹوئٹر پر بیٹھا تھا تو ٹوئٹر پر بھی یہ بحث چل پڑی ہے کہ کس نے عمران خان کو طالبان کا یہ خطاب دیا اگر ان کو یہ خطاب برا لگا اور ان کا دل دکھا جس آدمی نے بھی دیا جنہوں نے بھی دیا ان کو چاہیے کہ عمران خان صاحب کا جو دل دکھا ہے اس کی جو دل آزاری ہوئی ہے اس کے لیے ان سے معذرت کریں، عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ ہندوستان کے حوالے سے ان کا بھی وہ ہی رویہ ہے جو جنگ کا ہے جو جنگ گروپ کا ہے امن کی آشا کے حوالے سے۔ میں وضاحت چاہوں گا کسی بھی پی ٹی آئی کے رہنما سے اور خود عمران خان صاحب سے کہ عمران خان صاحب کیا آپ یہی کہنا چارہے ہیں کہ ہمیں ہندوستان سے دوستی کرنی چاہیے؟ ہمیں وہاں پر اچھا رویہ اپنانا چاہیے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو بڑھنا چاہیے عوام کے عوام سے تعلقات بننے چاہیے تاکہ اس خطے میں جو ٹیشن ہے وہ کم ہو اور جو سوا ارب روپے ہم ضائع کررہے ہیں دوسرے معاملات میں لوگوں کی بہتری پر خرچ ہو۔ ہمارا موقف جو ہمارے ادارے کا ہے وہ یہ ہے آپ بھی غالباً اس کے بارے میں قریب نظر آتے ہیں اس کے بارے میں قریب ہیں اور یہی کہہ رہے ہیں اس میں ہمیں تھوڑی سی clarity دے دیجیے گا۔ عمران خان صاحب آپ سیاست دان ہیں ہم آپ کا احترام کرتے ہیں آپ کے ساتھ کوئی ایسا سلوک نہ کیا جائے جو آپ کو برداشت نہیں ہوتا تو میرے خیال سے کچھ چیزیں آپ ایسی کہہ دیتے ہیں جس سے بہت سارے لوگوں کے دل بھی دکھتے ہیں اور ہم لوگ جو صحافت کررہے ہیں ان کے بارے میں بھی سوچنا کہ ان کا مالک ان سے بیٹھ کر کنٹرول کرتا ہے ہم کوئی کٹھ پتلیاں ہیں جو ان مالکان کے ہاتھ میں کھیلتے ہیں تو میرا خیال ہے سب کے لیے ایسا کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ صحافی کا اپنا ایک دماغ ہوتا ہے اس کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے وہ اپنے ڈھنک سے ایک چیز کا تجزیہ کرتا ہے بعض ٹائم یہ تجزیہ اس کے سیٹ کو پسند بھی نہیں آتا میں خود اس گروپ میں اتنے برسوں سے ہوں ہمارے گروپ میں دونوں انتہا کے لوگ موجود ہیں میرے جیسے بھی لوگ موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ Leftکی طرف ہمارا جھکاؤ ہونا چاہیے اس ملک میں جاگیرداری کا خاتمہ ہو سرمایہ داری کا خاتمہ ہو بہت لبرل ڈیمو کریسی ہونی چاہیے ہمارے ہی گروپ میں وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں نہیں یہ بلکل غلط کہتے ہیں ایسے خیالات رکھنے والے تقریباً اتنے برے ہیں کہ ان کو وقت سزا دے گا تو ہمارے ہی گروپ میں دونوں ہی انتہا ؤں کے لوگ کافی عرصے سے رہے ہیں یعنی یہ آج سے نہیں شروع ہو تو یہ سوچنا کہ ہم سارے کے سارے اپنے سیٹھ کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں یہ مناسب رویہ نہیں ہے اس سے ہمارا دل دکھتا ہے جس طرح عمران صاحب کا دل دکھتا ہے اسی طرح ہمارا بھی دل دکھتا ہے کہ ہمارے بارے میں یہ رویہ کرنے سے کہ ہم کچھ بھی نہیں ہے کہ صرف نوکری کے خاطر تنخواہ کی خاطر کٹھ پتلی کے طور پر استعمال ہورہے ہیں تویہ مناسب نہیں ہے آئیے ایک نیا باب شروع کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے آپ جمہوریت چاہتے تو ہم بھی جمہوریت چاہتے ہیں آپ ایک اچھا نظام چاہتے ہو ووٹنگ کے لیے ہم ایک اچھا نظام چاہتے ہیں اور ہم نے تو کام کیے اور جتنا کام جیو نے کیا ہے اور جس طریقے سے دھاندلی کوبے نقاب کیا ور جتنی دھاندلی کی فوٹیج الیکشن کمیشن پاکستان بھیجی کسی بھی ادارے نے نہیں بھیجی۔ایڈیٹر انویسٹی گیشن دی نیوز انصار عباسی کا کہنا تھاکہ مجھے تو بڑا عجیب لگا پہلے بھی چونکہ یہ بات اور پھر اس طرح جلسے میں آکر بات کرنا میرا خیال ہے بڑی معیوب سی بات ہے بہت ہی انتہائی ایک منفی بات ہے اور وہ بھی اگر ایک بڑ ا سیاسی لیڈر اس طرح کی بات کرے اور پھرآپ جنگ گروپ کے متعلق پھر آپ مالکان کا نام لے لیں تو آپ نے ٹوٹل یعنی ٹوٹل جنگ گروپ کا نام لے لیا، انہوں نے اگرچہ صحافیوں کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی مگر پورے کے پورے جنگ اور جیو کے جتنے بھی لوگ ہیں وہ اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ میں ابھی ابھی سہیل وڑائچ اور افتخارصاحب کو سن رہا تھا۔ یہاں ہر شخص کا اپنا ایک آزادانہ نقطہ نظر ہے تو یہ تو بڑی عجیب سی بات ہے کہ ہمیں کنٹرول کیاجاتا ہے اور مالکان کی مرضی اور منشا کے مطابق میں نے یا نجم سیٹھی یا وڑائچ صاحب نے بات کرنی ہے تو یہ تو بہت ہی منفی بات ہے میں جنگ گروپ میں کام کرتا ہوں اور امن کی آشا کے خلاف بولتا رہا ہوں اور لکھتا رہا ہوں میں نے لکھا بھی اس کے خلاف بولا بھی نہ صرف یہ اور بھی فرض کریں کچھ پالیسی ایسی تھی جس سے میرا اگر فرض کریں مختلف رائے تھی تو میں نے کھل کر لکھا ایسا لکھا کہ پیمرا تک کی طرف سے جرمانے ہوئے جیو کو آپ مجھے بتائیں کہ یہ بات کہنا کہ ایک طرف آپ ایک طرف امن کی آشا اور دوسری سائیڈ پر آپ کہہ رہے ہیں لڑائی کی جائے اور طالبان کے ساتھ، آپ کو پتا ہے کہ آپ حامد میر کا آپ ان کے کالم ان کے پروگرام دیکھیں آپ میرے کالم دیکھیں میری بات چیت دیکھیں اور اس طرح اور کئی لوگ جن کا 100فیصد زور اسی پر ہے ہم کہتے ہیں۔ جیو نیوزکی خصو صی نشر یا ت "دھر نا و رنہ "میں مسعود رضا کہ عمر ان خا ن کی جا نب سے لگا ئے جا نے وا لے الزام کہ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی چینل کامالک چینل کی ہر چیز کو کنٹرول کر سکتا ہے؟ کے سو ال کے جو اب میں جیو نیوز کے نیو زکنٹرولر انصا ر نقو ی کا کہنا تھا کہ کو ئی بھی چینل ایک منظم نظا م کے تحت چلا یا جاتا ہے یہ کہنا کہ ہر چیزمالکان کنٹرول کر تے ہیں با لکل غلط ہیں، میں ایک طویل عر صے سے اس ادارے سے و ابستہ ہو ں اور یہا ں درجنو ں فیصلے ہم خود کر تے ہیں اور ہمیں اگر ضرورت ہو تی ہے تو ہم سینئر ز سے مد د لیتے ہیں، ان کا مز ید کہنا تھا کہ ہما رے ہا ں ایک منظم نظام ہے جس کے اند رکنٹر ولر، نیو ز ایڈ یٹر، ڈا ئر یکٹر اورمینجنگ ڈا ئر یکٹر شا مل ہیں اس کے علاوہ ایڈ یٹوریل بورڈ بھی مو جود ہے جن سے مشو ر ے کے بعد سا رے فیصلے مسئلے کی نو عیت کے اعتبار سے کئے جا تے ہیں، انہو ں نے مز ید کہا کہ اس مخصو ص کیس میں عمر ان خان خا ں کو یہ کہاں سے نظر آگیا کہ تما م فیصلے شکیل الر حما ن صاحب کرتے ہیں میر ا نہیں خیا ل سے ایسا ممکن ہے، کیو نکہ نیو ز چینل 24 گھنٹے چلنے والی ٹر ین ہے جس میں ہر 8 گھنٹے بعد شفٹ انچا ر ج اور نیوز ایڈ یٹر تبدیل ہو تا ہے جو فیصلے کر تا ہے کیونکہ خبریں لگا تار آرہی ہو تی ہیں اورکسی بھی وقت کسی بھی نو عیت کی خبر آسکتی ہے اور ان پر اسی و قت فیصلہ کیا جاتا ہے، اور یہ نا ممکن ہے کہ کسی بھی چینل کا مالک کے لئے کے وہ ہر فیصلہ خو د کر ے ہاں اگر کو ئی حسا س مسئلہ آتا ہے اور محسو س ہو تا ہے کہ اس پر مشو رہ ہونا چاہئے تو مشور ے کئے جا تے ہیں اور اسی کے مطا بق معا ملے کو آگے بڑ ھا یا جا تا ہے، ان کا مز ید کہنا تھا کہ عمر ان خان نے ان کو نشانہ بنا کر ادار ے کو بد نا م کیا ہے، ما ضی میں الیکشن سے قبل مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں جماعتوں کی لیڈ ر شپ نے ہما رے گرو پ کے اعلیٰ عہد یداران سے ملا قا تیں کی ہیں، انصا رنقوی نے مز ید بتا یا کہ نیو ز رو م کا ضا بطہ نشر با لکل مختلف ہے خبر کے آتے ہیں فیصلہ کر نا ہو تا ہے کہ کیا کر نا ہے کیو نکہ اتنا مقابلہ ہے میڈ یا میں کے اگر آپ ڈیلے کر یں گے تو کو ئی اور بریک کر دے گا اس لئے ہمیں فیصلے فو ری طور پر کر نا ہوتا ہے، اس کے بر عکس حسا س معاملات میں اپنے سینئر زسے مشورے کے بعد فیصلے کئے جا تے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ پیشہ ور انہ طور پر یہ ممکن ہے کسی بھی چینل کے لئے میں جنگ گر و پ کی با ت نہیں کرر ہا میں د یگر کی بھی بات کر رہا ہو ں کہ چینل کے ما لکا ن اس طر ح فیصلو ں پر اثر انداز ہوں مسعو د رضا کے ایک سوال کہ جب آج جب عمر ان خان نے جیو کو ہد ف تنقید بنا یا تو آپ نے ان کو نشر کیو ں کیا؟ اس سو ال کے جو ا ب میں انصا ر نقو ی کا کہنا تھا کہ یہ ہما ر ی پیشہ و را نہ ذ مہ دا ری ہے جوکچھ ہم نے دیکھا بھلے ہما رے خلاف د یکھا، ہما ر ا جنا ز ہ بھی نکا لاگیا، جیو اور جنگ گر وپ کے با ر ے میں غلط لکھا گیا مگر ہم نے سب چلا یا یہ ان کا ظر ف تھا کہ انہو ں نے کیاکہا ہم نے تو خو د پر ہو نے و الی تنقید کو بھی نشر کیا لیکن لو گ سب دیکھ ر ہیں ہیں کے عمرا ن کیا کر رہے ہیں کس کی زبان بو لتے ہیں، ان کا ٹا رگٹ کچھ اور ہے اور اس سب کے پیچھے وہ مز ید مقا صد حا صل کر نا چا ہتے ہیں سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ آج ان کی بہت ساری باتیں معقول تھیں، بہت سارے مطالبات معقول تھے۔ الیکشن ریفارمز کے بارے میں ان کی باتیں جائز تھیں اور جوانہوں نے چار حلقوں کے بارے میں کاؤنٹنگ والی بات کی وہ بھی جائز ہے۔ لیکن انہوں نے جو باتیں ہمارے ادارے کے بارے میں کیں ان میں سے بہت سی باتیں بے بنیاد بغیر ثبوت کے تھیں، انھوں نے الزام لگایا کے ہمارے ادارے کو پیسے ملتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ الزام پہلی بار پیمرا کی ایک رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔ بعد میں جب سپریم کورٹ میں پیمرا چیئرمین اور دوسرے اہلکاروں کو بلایا گیا انہوں نے اس کی باقاعدہ معافی مانگی اور الزام کو واپس لیا۔ بغیر ثبوت کے عمران خان جیسے شخص سے اس طرح کے الزامات کی توقع نہیں تھی۔پھر انہوں نے کہا کہ مشرقی سرحد پر امن کی آشا کی بات کی جاتی اور مغربی سرحد پر مجھے طالبان خان کہہ کر پکارا جاتا ہے۔اس کی حقیقت کو جانیں تو جنگ اور جیو میں ہر رائے کو پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ جنگ اور جیو میں ایسے ہیں کہ جو چاہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ہوں۔ انصار عباسی، حامد میر بڑے زور شور سے امن مذاکرات کی حمایت کرتے رہے ہیں اورنجم سیٹھی صاحب شرو ع دن سے کہتے ہیں کہ طالبان مذاکرات کا کوئی بڑا فائدہ نہیں ہوگا۔اس پر ادارے کو الزام دینا، انتظامیہ کو الزام دینا کہ آپ ذمے دار ہیں یہ بات جائز نہیں ہے۔ اگر جنگ اور جیو کو دیکھا ہو تو یہ ایسا آزاد سسٹم ہے مثلاً میں جنگ کے ادارتی صفحے کو دیکھتا ہوں، کالمز دیکھتا ہوں تو ہر کوئی لکھنے میں آزاد ہے۔ ہرکسی کی اپنی سوچ ہے۔اسی طرح دائیں بازو کے لوگ ہیں جو امن کی آشا کے خلاف لکھتے ہیں۔ ہم کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتے ہم اپنے مالک سے بھی ڈکٹیشن نہیں لیتے۔ ہم ایک پروفیشنل سسٹم کے تحت کام کرتے ہیں۔ایسا ہی جیو کے اندر ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے کہا ہمیں تھوڑا سا اطمینان ہورہا ہے کہ آج اگر آپ پر الزامات لگے ہیں تو کیسا محسوس ہورہا ہے ہمارے اوپر آپ لوگوں نے پانچ سال تک الزامات لگائے۔ عمران خان نے کہا کہ ہمارے ساتھ دھاندلی ہوئی اور افتخار چوہدری اور جیوا س میں شامل ہیں۔آپ نے پانچ سال تک ہماری درگت بنائی لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ الیکشن میں دھاندلی نہیں کراسکتے۔ دھاندلی جیو کے بس کا کام نہیں ہے۔ آپ الیکشن ٹریبونل میں گئے اور اگر فیصلہ نہیں ہوا تو آپ سپریم کورٹ میں چلے گئے انہوں نے کہا ہمارے پاس بہت کیسز ہیں آپ وہیں جائیں۔انہوں نے کہا جب حامد میر کا واقعہ ہوا اس کے بعد ہم نے بھی کہا کہ جیو نے کچھ زیادہ کردیا ہے۔ اچانک دھاندلی والی بات جو سامنے آئی ہے وہ ہضم نہیں ہورہی۔آج افتخار چوہدری کا ذکر تک نہیں کیا، جنہوں نے دھاندلی کرائی ہے آپ نے تو دھاندلی کرائی ہی نہیں۔ سینئر تجزیہ کارسلیم صافی نے کہا کہ مجھے آج زندگی میں پہلی بار عمران خان صاحب سے ہمدردی ہوگئی ہے کیوں کہ لوگوں نے ان کو قومی سطح کا لیڈر سمجھا تھا ان سے تبدیلی کی توقعات وابستہ کی تھیں۔ آپ دیکھیں کہ اسٹیج پر ان کی ایک جانب جہانگیر ترین بیٹھے ہوئے تھے جو مشرف صاحب کے وزیر تھے، دوسری جانب شاہ محمود قریشی صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ہی لوگ جن کے خلاف تحریک انصاف بنی تھی ان کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ دوسرا مجھے اس بات کا افسوس ہے آج عمران خان نے اپنے آپ کو چوہدری شجاعت حسین اور طاہر القادری کی صف میں کھڑا کردیا۔ چوہدری شجاعت حسین نے اپنے لیڈر نوازشریف سے بے وفائی کے بعد پرویز مشرف کی جماعت کو پکڑاتھا۔ عمران صاحب یہ کریڈٹ لیتے تھے کہ وہ پاکستانی ہیں اور باہر کی دنیا کو چھوڑ کر یہاں سیاست کررہے ہیں۔وہ آج ان لوگوں کو اپنے خیال میں مجرم قراردیتے ہیں جن کے پاس دنیا کے کسی بھی ملک میں رہنے کی گنجائش تو ہے لیکن وہ اسی پاکستان میں ہیں لیکن وہ ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے جن کے پاس کینیڈا کی شہریت ہے مجھے ایک لیڈر کے اس مقام تک آنے پر جو عرش پہ تھے اور اپنے آپ کو فرش پر لے آئے اس پر بڑا افسوس ہورہا ہے۔آج ان کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں جبراً کہہ رہے ہیں اور ان کا دل اور زبان ساتھ نہیں ہے۔ وہ خود یہ سمجھتے ہیں کہ جو وہ کہہ رہے ہیں ٹھیک نہیں کہہ رہے۔ سلیم صافی کا کہنا تھا جہاں تک طالبان کا معاملہ ہے اس پر خیبر پختونخواہ کے لوگوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیئے کہ وہ اس کا کوئی حل نکالیں گے لیکن آج بھی پشاور میں اْن آئی ڈی پیز کی رجسٹریشن ہورہی تھی جو تیراہ سے آئے ہوئے تھے وہاں دھماکا ہوا اور پانچ لاشیں گریں۔ آج بھی نہ کوئی وزیر گیا نہ مشیر گیا۔ پچھلے سات ماہ سے ہم لوگ حکومت پر تنقید کررہے ہیں۔ اصل میں ان کو پتا چل گیا کہ وہ اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ ان کے وزیر نے پارلیمنٹ میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک پر الزام لگایا تو ان کو جواب دینا پڑا کے مجھ پر غلط الزام لگایا گیا ہے۔ ان کی حکومت وہاں ناکام ہوچکی ہے۔اس لیے یہ اس نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ان کو پرویز خٹک اور ہمارے اسد قیصر صاحب ان کی حکمرانی ان کو راس نہیں آرہی ہے، شیریں مزاری صاحبہ بھی کہہ رہی ہیں کہ اس بار بھی وہ چھتری سے چھلانگ لگا کرآئی ہیں۔اس لیے ان کو اس سسٹم سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اگر کچھ اور ہوا جوا ب تحریک انصاف کے وارث بنے ہوئے ہیں کچھ مشرف کی باقیات اور کچھ وہ چاہتے ہیں کہ شاید ان کو اقتدار مل جائے مجھے اس کے علاوہ اور کوئی لاجک سمجھ نہیں آتی۔ اور ایک بات میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ میڈیا کے ساتھ یہ ہی کچھ ہونا چاہیے تھا جو اس وقت عمران خان صاحب کررہے ہیں کیوں کہ میں بھی نجم سیٹھی کے ساتھ شامل تھا۔ میڈیا کا کام خبر دینا اور تجزیہ کرناہے۔ جو الزامات وہ لگا رہے ہیں وہ ایک بھی نیا نہیں امن کی آشا کا اسد عمر صاحب حصہ تھے، میں اور حامد میر حصہ نہیں تھے، ذرا سوچیئے کا وہ حصہ تھے۔ ان کو سب کچھ حقیقت معلوم نہیں ہے۔ کیا وہ چیف الیکشن کمشنر تھے یا نگراں وزیر اعظم تھے یہ نہ نگراں وزیر اعظم کا نام لے رہے ہیں، چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کے معاملے میں اے این پی اور مولانا فضل الرحمان سے نہیں پوچھا گیا۔ میں نجم سیٹھی کے نگراں وزیر اعلیٰ بننے کا مخالف ہوں ان کے چیئرمین پی سی بی بننے کا بھی مخالف ہوں۔اس وقت عمران خان نے نجم سیٹھی کی تعریف بھی کی تھی۔ دھاندلی تو پیپلزپارٹی، اے این پی اور جے یوئی آئی کے ساتھ ہوئی ہے۔ اللہ تعالی ٰ عمران خان کو جہانگیر ترین اینڈ کمپنی کے نرغے سے نکال دے اور عمران خان کو اس حقیقی تحریک انصاف میں لے آئے۔ جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی کا کہنا تھا کہ بطور حکومت ہماری ذمہ داری تھی کہ پر امن طریقے سے طاہر القادری کے لانگ مارچ کے شرکاء کو نکلنے کا موقع دیا جائے، معصوم بچوں اور خواتین ڈنڈے مار کرجیلوں میں نہیں ڈالا جاسکتا تھا سو ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کی اب وہ کہیں کہ ہم انہیں مانتے ہی نہیں تو یہ کوئی بات نہیں، عمران خان جو کہہ رہے ہیں تو کوئی ثبوت تو نہیں ہیں نا،حالات اور باتوں سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ ان کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں، اگر الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی پر عائد ہوتی ہے الیکشن کمیشن کے ارکان کو ہٹانے کا راستہ بھی وہی ہے جو جج کو ہٹانے کا ہے۔کوئی جنگل کا قانون تو نہیں ہے قانون کے اندر راستے دیئے ہوئے ہیں، سسٹم چلتا رہنا چاہئے اسی سسٹم میں رہ کر ہمیں کام کرنا ہے۔ دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ میں نے چیلنج کیا تھاکہ طاہر القادری خود 62، 63پر پورا نہیں اترتے اگر وہ اس پر پورا اتریں تو میں سیاست چھوڑ دوں گا،ان کا نا کوئی منشور ہے اور نا کوئی سر پیر ہے اور نا ہی کبھی عوام میں گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے تو صاف انکار کردیا ہے کہ پاکستان میں میں نے کسی قسم کی تقرری کبھی کی ہے نہ کرنی ہے تو اگر جماعت کے لیڈر کی یہ حالت ہے توپاکستان میں نوجوانوں کو روزگار ملے گا کہاں سے؟چاروں صوبائی الیکشن کمشنرزکا مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی عمران خان کا عجیب ہے کہ وہ ایک ادارے کا تسلسل ختم کر کے اس کو برباد اورمفلوج کرنا چاہتے ہیں، کسی جج کے خلاف اگر ان کو کوئی شکایت ہے تو نیشنل جوڈیشل کمیشن موجود ہے وہاں جا کر درخواست دیں کہ ان چار حلقوں میں غلط ہوا ہے۔ دانیال عزیزکا کہنا تھا لوگ ڈلیوری چاہتے ہیں، کیا خیبر پختونخوا میں سب کو انصاف مل گیا ہے۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹرجنگ گروپ سلمان لالانی کا کہنا تھا کہ ایک نجی چینل کا اینکرکافی عرصے سے جیو پر الزام لگارہا ہے جبکہ وائس آف امریکا کا یہ ہی پروگرام دوسرے کئی چینلز پر بھی چل رہا ہے، عمران خان اور اس اینکر نے بھی کبھی ان چینلز کا ذکر نہیں کیا، یہ صرف ہمیں گندا کرنے اور ہماری ساکھ کوخراب کرنے کے لئے اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے باقاعدہ طور پر امریکی حکومت اور ان کی چار مختلف ایجنسیوں ڈپارٹمنٹ آف اسٹیٹ ، آفس آف مینجمنٹ اینڈ بجٹ، براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنر اور وائس آف امریکا کو خط لکھے ہیں اور ان سے دریافت کیا ہے کہ ہمیں پوری تفصیلات دیں کہ کن کن چینلز اور میڈیا آرگنائزیشنز نے پاکستان میں میڈیا کے لئے امریکی حکومت سے فنڈز لئے ہیں تاکہ وہ تفصیلات امریکی حکومت کی طرف سے پاکستانیوں کے لئے سب کے پاس شامل ہوں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ جو جیو پر الزام ہے وہ غلط الزام ہے، ہمارے علاوہ کئی چینلز نے ان پروگراموں کو چلایا ہے اوریہ قانونی طور پر ہوا ہے اور اس بات کی مکمل تفصیلات عمران خان کو پہلے سے معلوم ہے مگر وہ دوسروں کا نام نہیں لیتے کیونکہ اس میں ان کا مقصد ہمیں گندا کرنا ہے۔ سلمان لالانی کا کہنا تھا کہ عمران خان کایہ بالکل غلط الزام ہے کہ ہم امریکا کی لابنگ کرنے کے لئے ان سے پیسے لیتے ہیں، دنیا کے کسی بھی کورٹ میں لے جائیں یہ ثابت نہیں کر پائیں گے، انہوں نے الزام لگایا ہے کہ ہم نے وائس آف امریکا سے پیسے لے کر امریکا کی لابنگ کی ہے مگر یہ نہیں بتا رہے کہ وائس آف امریکا کا پروگرام ’آج‘ پر بھی چلا ہے، پی ٹی وی پہ بھی چلا ہے، ایکسپریس ٹی وی کے بی بی سی کے ساتھ اور کئی اور دوسرے چینلز کے بی بی سی کے ساتھ پاکستان میں اشتراک ہیں اور یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یوایس ایڈسے ہم نے پیسے لئے ہیں تو وہ قانونی طور پر پیسے لئے ہیں ان کی تمام تفصیلات آڈٹ شدہ ہیں اور ان کی تمام تفصیلات پیمرا کو جمع کرا دی گئی ہیں، جن جن کورٹس نے ان تفصیلات سے متعلق ہمیں ذکر کیا ہم نے وہ ان کورٹس کو دیا ہے لیکن کوئی چیز غیر قانونی نہیں ہے اور کوئی چھپی ہوئی نہیں ہے، ہماری ویب سائٹ پر، سوشل میڈیا پر ریکارڈ کا حصہ ہے اور میں تمام صحافی برادری سے اور تمام ٹی وی چینلز سے اپنے گروپ کی طرف سے پرسنلی میں چاہوں گا کہ جو صحافت کے تقاضے ہیں ان کو پورا کرتے ہوئے ہمارا موقف بھی اب بتائیں، ان کے ناظرین کو ان کے سامعین کو ہمارا موقف بھی اب بتائیں اور عمران خان کو بھی بتائیں کہ جنگ گروپ نے یہ پبلش کیا ہوا ہے، ویب سائٹ پر، سوشل میڈیا پر موجود ہے اور اگر دوسرے ممالک، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، وہ ممالک جن کے اپنے وسائل کم ہیں وہ اگر ہیلتھ، ایجوکیشن، انفرا اسٹرکچر، پولیو سے متعلق کوئی چیز اس کے لئے اگر کہیں سے کوئی امداد لیتے ہیں تو سبھی امداد لیتے ہیں اس میں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وائس آف امریکا کا پروگرام پی ٹی وی، ایکسپریس ٹی وی اور دنیا چینل پر بھی چلا ہے اور انہیں بھی پیسے ملے ہیں مگر عمران خان نے کبھی ان کا ذکر نہیں کیا، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس جو پیسے آئے ہیں وہ وائس آف امریکا سے متعلق آئے ہیں اور ایم کے آر ایف کے ذریعے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایم کے آرایف (فاؤنڈیشن) کے بورڈ میں تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اسدعمر سمیت ملک کے نامور صنعتکار اور دیگر شخصیات شامل ہیں، اس کے علاوہ اس آڈیٹرز میں دنیا کے دو نامور آڈیٹرز بھی شامل ہیں۔ فنڈز فراہم کرنیوالا برطانوی ادارہ ڈفرڈ کئی مہینوں کی چھان بین اور اسکروٹنی کے بعد فنڈز جاری کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور یہ سارا عمل قانون کے دائرے میں ہوتا ہے۔

مزید خبریں :