26 نومبر ، 2014
کراچی.........ناانصافی کی انتہا ہوگئی، ایک ہی الزام پر کہیں مقدمہ ختم کرنے کا حکم، کہیں سزا، گلگت میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان، اسد خٹک، وینا ملک اور شائستہ لودھی کو 26سال قید اور 13لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنادی، لیکن نہ مدعا علیہان کا مؤقف سنا گیااور نہ ہی فیصلہ پاکستان میں لاگو ہوتا ہے، میر شکیل الرحمان کا جیو سے کوئی تعلق نہیں، جس شخص کی ایف آئی آر پر فیصلہ سنایا گیا وہ خود قتل کا ملزم ہے، دوسری ایف آئی آر کا گواہ بھی 10افراد کو بسوں سے اتارکر قتل کرنے کا ملزم ہے اور اُس کے خلاف اسی عدالت میں مقدمہ زیر سماعت ہے۔ایک الزام، 75 ایف آئی آر اور پاکستانی تاریخ کی رکارڈ سخت ترین سزا۔ گلگت میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان، شائستہ لودھی، وینا ملک اور اسد خٹک کو 26 - 26 سال قید، 13 - 13 لاکھ روپے جرمانے جائیداد اور پاسپورٹ ضبط کرنے کی سزا سنادی۔ عدالت نے جیونیوز کے رپورٹر سعادت علی مجاہد کو گرفتار کرنے کا حکم بھی جاری کردیا۔ مدعاعلیہان کو سنے بغیر سزا کا حکم؟؟؟ عجیب صورتحال ہے کہ دائرہ اختیار رکھنے والی عدالتوں نے تو ایف آئی آر ختم کیں لیکن انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دائرہ اختیار نہ ہونے کےباوجود سزا سنادی۔ جیو انٹر ٹینمنٹ پروگرام کی میزبان سمیت انتظامیہ انجانے میں ہونے والی اپنی غلطی پر معافی مانگ چکے ہیں ۔ جو 30بار نشر کی گئی، جید علما بھی وضاحت کرچکے ہیں کہ اگر ایسی غلطی پر فوری معافی مانگ لی جائے تو اللہ بھی معاف فرما دیتا ہے، جیو کے برعکس کئی چینلز یہی غلطی دہراتے رہے لیکن اسے معیوب نہیں سمجھا گیا۔ ان کے خلاف بھی 6 ایف آئی آر درج ہوئیں لیکن کارروائی صرف جیو کے خلاف کی گئی۔ پیمرا نے جیو انٹرٹینمنٹ کی نشریات ایک ماہ کے لیے معطل کردی تھیں اور اور ایک کروڑ روپے جرمانہ کیا تھا جو ادا کردیا گیا ۔ لہٰذا پیمرا ایکٹ کے مطابق جیو اس الزام کی سزا پہلے ہی بھگت چکا ہے ۔ آئین کے تحت ایک الزام پر ایک سے زائد مقدمات نہيں چل سکتے۔ گلگت کی عدالت نے جس شخص حمایت اللہ کی درخواست پر فیصلہ سنایا ہے۔ وہ خود گلگت کے ایک عالم کے قتل کی واردات کا نامزد ملزم ہے۔ دوسری ایف آئی آر کے گواہ نمبر ایک اور اصل محرک مزمل شاہ پر چلاس شاہراہ قراقرم پر بسوں سے اتار کر 10افراد کو قتل کرنے کے الزام میں اسی عدالت میں مقدمہ چل رہاہے۔ اس گھناؤنی واردات کا نامزد ملزم ایک سال دس ماہ جیل میں بھی رہا اور آج کل ضمانت پر رہا ہے، تقریباً دو سال گزرنے کے باوجود اب تک مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوا۔ دوسری جانب ایک ایسا کیس جس میں دہشت گردی کا عنصر بھی نہ تھا اس کی جلدی جلدی سماعت مکمل کرکے اتنی سخت سزائیں سنا دی گئیں۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے فردجرم کی نقول عدالت کے ہی مقرر کردہ وکیل کو بھی مہیا نہیں کی تھیں۔ عدالت نے اس بات کا اطمینان کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی کہ سمن یا وارنٹ نوٹسوں کی قانون کے مطابق تعمیل کرلی جائے، یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ میر شکیل الرحمان نہ تو جیو انٹر ٹینمنٹ کی کمپنی آئی ایم سی کےشیئر ہولڈر ہیں اور نہ ہی ڈائریکٹر اور نہ جیو انٹر ٹینمنٹ کی ایڈ منسٹریشن سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ مذکورہ پروگرام میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اور جس دن یہ پروگرام نشر ہوا وہ دبئی میں تھے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ گلگت کی عدالتوں کے فیصلے اور احکامات پاکستان میں لاگو نہیں ہوتے۔ گلگت میں بالکل الگ قانونی نظام ہے، پاکستان کا آئین وہاں لاگو نہیں ہے، گلگت بلتستان کے معاملات ایک انتظامی حکم گلگت بلتستان سیلف گورننس آرڈر2009ء کے تحت چل رہے ہیں، جیو انتظامیہ نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کافیصلہ کیا ہے، سوچنے کی بات ہے کہ یہ سب کیا ہورہاہے، اور کچھ عرصے سے جنگ اور جیو کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہورہاہے ۔