پاکستان
25 اپریل ، 2012

اصغر خان کیس، وزارت داخلہ کی رپورٹ ناقابل قبول قرار

اصغر خان کیس، وزارت داخلہ کی رپورٹ ناقابل قبول قرار

اسلام آباد… سپریم کورٹ میں آئی ایس آئی کی جانب سے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے مہران بینک اسکینڈل پر وزارت داخلہ کی رپورٹ ناقابل قبول قراردے دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ رپورٹ رحمان ملک کی یاد داشتوں پر مبنی ہے جسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔ سماعت کے دورانانٹیلی جنس بیورو نے 27 کروڑ روپے کی مبینہ تقسیم کی رپورٹ سربمہر لفافے میں پیش کردی، عدالت نے آئی بی کی رپورٹ پر ڈی جی ایف آئی اے سے بھی جواب طلب کر لیا، عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ 10مئی تک مہران اور حبیب بینک کی رپورٹس پیش کریں۔ آج عدالت کو بتایاگیاہے کہ ماضی کے سیاسی اتحاد آئی جے آئی کے سیاست دانوں کو اسٹبلشمنٹ سے رقوم ملنے کے خلاف کمیشن رپورٹس مل نہیں سکی ۔ نیب کا کہناہے کہ سابق صدرمہران بنک یونس حبیب کیخلاف اسکا ریکارڈ بھی نہیں مل رہا۔ چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اصغر خان کیس کی سماعت کی، اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مہران بنک، حبیب بنک سے متعلق ماضی کے کمیشن کی رپورٹس ابھی نہیں ملیں ، داخلہ امور اور قانون کی وزارتون کو انہیں جلد تلاش کرنے کا کہاہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پرائیویٹ افراد کے پاس یہ رپورٹس ہیں، حتی کہ حامد میر کے پاس رپورٹ ہیں، جب تک مطلوبہ رکارڈ موجود نہیں ہوگا تب تک سماعت بے سود ہوگی، عدالت نے اصغرخان کے وکیل سلمان راجا کو کہاکہ وہ حامدمیر کو درخواست کریں کہ یہ کمیشن رپورٹس دیں، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہاکہ کمیشن رپورٹس گم ہونے پر ایف آئی اے کو کہیں کہ مقدمہ درج کرکے گرفتاریاں کرے، عدالت نے پوچھاکہ یونس حبیب ایک کیس میں سزا یافتہ ہوا دوسرے پلی بارگین کی رپورٹس کہاں ہیں تو نیب نے بتایاکہ وہ ریکارڈ بھی تلاش کیا جارہا ہے، جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے کہ تعجب کی بات ہے کہ کمپیوٹر کے دور میں رپورٹس نہیں مل رہیں۔ اٹارنی جنرل نے مہران بنک اسکینڈل پر نصیراللہ بابر کے دور وزارت میں وزارت داخلہ کی رپورٹ پیش کیں اور کہاکہ نواز شریف کو 5 کروڑ روپے ادائیگی ہوئی، یونس حبیب نے رقوم کا غلط استعمال کیا، اسد درانی نے بینظیربھٹو کو خط لکھ کرکہاکہ وہ رقوم لینے والوں کا بتانا چاہتے ہیں، وزیرداخلہ نصیراللہ بابر نے ایف آئی اے آفیسر رحمان ملک کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپیں اور جرمنی بھیجا ، اس وقت خدشہ تھا کہ اسد درانی کا تحریری بیان چوری ہوجائے گا۔ سلمان راجا نے کہاکہ نصیراللہ بابر کے مطابق ادا شدہ رقوم کی رسیدیں موجود ہیں، اس میں جونیجو اور جتوئی کی رسیدوں کا بھی ذکر ہے اور رپورٹ کے مطابق جنرل بیگ کو 1993 تک رقوم ادائیگی ہوتی رہے۔ سلمان راجا نے کہاکہ اسددرانی اور اسلم بیگ کے بیان، کیس کو آگے بڑھانے کیلئے کافی ہیں اس میں ملوث دو جنرلز کی حد تک تو فیصلہ کیا جاسکتا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لوٹی گئی دولت کا کیا بنے گا، تمام معاملات منطقی انجام تک پہنچانا ہوں گے۔ جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ انکے موکل کا رقم سے لینا دینا نہیں تھا،انکی کی ذمہ داری اتنی تھی کہ رقم کی درست تقسیم ہو، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بطور آرمی چیف ، یہ ان کے کرنے کا کام تھا۔ سلمان راجا نے کہا کہ یونس حبیب نے 91ء میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کو 140 ملین روپے بطور عطیہ دئے، یہ سب غلام اسحاق خان، روئیداد خان اور اجلال حیدرزیدی کے علم میں تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہ کمیشن بنانے کی بجائے ہم کہیں گے کہ اس وقت کے آرمی چیف کیا کررہے تھے، جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے کہ آرمی چیف کو اپنا ادارہ گندے کھیل کا حصہ بنانے سے انکار کردینا چاہیئے تھا، کسی کو اختیار نہیں کہ وہ آئین سے باہر ہوکر کام کرے، عدالت نے تقسیم شدہ 140 ملین روپے کی تفصیلات اکرم شیخ سے طلب کرلیں ۔ بعد ازاں کیس کی کارروائی10مئی تک ملتوی کر دی گئی۔

مزید خبریں :