بلاگ
06 فروری ، 2017

پولیس اور پولیس سروس آف پاکستان

پولیس اور پولیس سروس آف پاکستان

رئیس انصاری، بیورو چیف جیو نیوز لاہور
پولیس کی جانب سے مار پیٹ تو ہر روز سامنے آتی ہے، اب تو ڈر یہ لگتا ہے کہ گھر سے نکلے تو کہیں پولیس والے سر میں گولی ہی نہ مار دیں، شہری ہونے پر بھی پاکستانی ہونے کا ثبوت دینا پڑتا ہے، منہ بھی سونگھا جاتا ہے، خاتون ساتھ بیٹھی ہو تو سڑک پر ہی اس کی انکوائری شروع ہوجاتی ہے، یہ بھی جواب دینا پڑتا ہے کہ کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں جارہے ہیں، غرض یہ کہ اتنی سختی تو امریکا کے صدر ٹرمپ بھی مسلمانوں پر نہیں کررہے جتنی پاکستان کی سڑکوں پر پولیس والے بے گناہ لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں، اگر غلطی سے سوال کر بیٹھیں تو پولیس والے تھپٹر گھونسوں سے تواضع کرتے ہیں، تھانے لے جاکر علیحدہ مہمان نوازی ہوتی ہے اور مقدمہ درج کرکے حوالات میں بند کردیا جاتا ہے۔

پچھلے دنوں اسلام آباد میں پولیس کے ناکے پر ایک بے گناہ نوجوان کو گولی مار کرموت کے گھاٹ اتار دیا گیا، اس کا قصور یہ بتایا گیا کہ ناکے پر رکنے کا اشارہ کیا گیا تو اس کا نہ رکنا گناہ بن گیا اور گولی ماردی گئی، ابھی طے نہیں ہوا کہ رکنے کا اشارہ کیا گیا یا نہیں، اگر وہ نہیں رکا تو ناکے کے قریب لگے کیمرے سے مدد لی جاسکتی تھی یا اس کا پیچھا کیا جاسکتا تھا۔

بات ناکے پر رکنے یا نہ کرنے کی نہیں ہے، مسئلہ غلط نظام کا ہے جس کی وہ بھینٹ چڑھ گیا، اوپر اس بات کا ذکر کرچکا ہوں کہ سڑک پر بے گناہ لوگوں کو بہت حساب دینا پڑتا ہے، اگر نظام میں خرابی نہ ہوتی اور مقتول کو پتہ ہوتا کہ دوست لڑکی کو ساتھ بٹھانے پر پولیس نہیں پوچھے گی تو اس نے رک جانا تھا، اس سے غلطی نہ رکنے کی نہیں، دوست کو ساتھ بٹھانے کی ہوئی تھی، جس کا قانون میں کہیں ذکر نہیں کہ کوئی شہری خاتون کو گاڑی میں نہیں بٹھا سکتا۔

اے ایس پی سے آئی جی تک کے عہدے کے ہمارے پولیس سروس آف پاکستان کے اعلیٰ افسران جو اپنے کاندھے پر پولیس لکھنے کے بجائے پی ایس پی کا بیج لگانا پسند کرتے ہیں، وہ ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر صرف حکمرانی کرنا جانتے ہیں، گھر سے گیارہ بجے آفس آنا اور دو گھنٹے بعد میٹنگ کا کہہ کر نکل جانا ان کا معمول ہے، دوسری طرف کانسٹیبل سے لے کر ڈی ایس پی تک بے چاری پولیس جس کا کام ماتحت عدالتوں میں کیس لے کر حاضر ہونا ہے، سارے دن اور رات ڈیوٹی کرنا، پولیس سروس آف پاکستان کے افسران کے آپریٹر، ڈرائیور، چپڑاسی کے طور پر کام کرنا اور قربانیاں دینا ہے، اسلام آباد میں پولیس والے نے نوجوان کو گولی مار کر قتل کردیا تو معطل کون ہوا، پولیس والا ایس ایچ او نہ کہ پولیس سروس آف پاکستان کے اے ایس پی، ایس پی یا ڈی آئی جی، کیا ایس ایچ او نے حکم دیا تھا کہ گولی چلادو، وہ تو وہاں پر موجود ہی نہیں تھا، اگر وہ تھانے کا انچارج ہے تو ایس پی ڈویژن کا انچارج ہے، ایس ایس پی شہر کا انچارج ہے ان کو کیوں معطل نہیں کیا جاتا، سزا صرف پویس والے کے حصے میں کیوں آتی ہے۔

آخر میں یہ کہتا چلوں کہ اسلام آباد میں نوجوان کو ناکے پر قتل کرنے کا واقعہ پولیس سروس آف پاکستان کے اعلیٰ افسران کی غفلت کا نتیجہ ہے، سیاستدان اوریہی اعلیٰ پولیس افسران پچھلے 25 سال سے کہتے آرہے ہیں کہ پولیس کا کلچر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، کلچر پولیس والوں کا نہیں کلچر پولیس سروس آف پاکستان والوں کے بدلنے کا ہے،پتہ نہیں یہ کلچر کب بدلے گا اور کون بدلے گا،شاید کلچراس وجہ سے نہیں بدلا جاسکتا کہ پولیس سروس آف پاکستان والے چاہتے ہی نہیں، سیاستدان بھی پی ایس پی والوں کی رپورٹ پر عمل کرتےہیں، پولیس والوں کی کہاں سنتے ہیں ۔