جناح، ماؤنٹ بیٹن اور پاکستان

آج سے ٹھیک ستر برس پہلے میرے بزرگ صدیوں پر محیط ایک تاریخی ارتقائی عمل کے بعد اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر اس پاک سرزمین پر اپنا پہلا قدم رکھ رہے تھے،وہ اپنا سب کچھ ہندوستان چھوڑ آئے تھے۔

میرے دادا جان جناب حکیم محمد یعقوب منیر عظیمی جو تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما تھے، انہوں نے اپنی وضع داری اور پاکستان سے محبت میں کبھی کچھ کلیم تک نہ کیا۔پاکستان کے پہلے ہیرو اگر محمد علی جناح ہیں تو پاکستان کا پہلا دشمن لارڈ ماؤنٹ بیٹن تھا جو پاکستان کو کسی صورت میں بننے نہیں دینا چاہتا تھا اورمحمد علی جناح سے سخت نفرت کرتا تھا۔

پنڈت نہرو نے کس طرح مسئلہ کشمیر لیڈی ماؤنٹ بیٹن کے ذریعے پیدا کیا اور مسلم اکثریتی علاقے کس طرح ہندوستان کے حوالے کئے،جناح کی وفات کے ساتھ ہی حیدر آباد دکن پر غاصبانہ قبضہ کیا گیا جو اس وقت فرانس سے بڑی ریاست تھی اور شاہان مغلیہ کی آخری نشانی بھی۔

اس وقت لیڈی ماؤنٹ بیٹن نے کس طرح اپنی خوشی کا اظہار کیا یہ سب تاریخ کا حصہ ہے لیکن افسوس نئی نسل ان خوفناک سازشی کرداروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتی اور اس میں سراسر قصور ہمارا ہی ہے۔مشہور مورخ اسٹیلنے والپرٹ کے مطابق یکم نومبر کو قائد اعظم اور ماؤنٹ بیٹن کی آخری ملاقات میں جناح نے انڈیا پر الزام لگایا کہ اس نے فراڈ اور تشدد سے کشمیر پر قبضہ کر لیا ہے۔

ماؤنٹ بیٹن نے آر اے ایف جسے جانبدار رہنا چاہیے تھا کشمیر پر خفیہ حملوں کے لیے بھجوایا جب انڈیا کی پاس کوئی ہوائی جہاز نہ تھا۔چرچل مسئلہ کشمیر پر ماؤنٹ بیٹن سے اسکی حرکتوں کی وجہ سے سختی سے پیش آیا۔باؤنڈری کمیشن کا سیکرٹری بیو مانٹ اس سلسلہ میں ماؤنٹ بیٹن کی شرمناک حرکت کو بیان کرتا ہے کہ اس نے سرحد کو تبدیل کرنے کا حکم دے دیا جس کے بعد فیروز پور میں تاریخ کا بدترین قتل عام ہوا۔

ماؤنٹ بیٹن خود لکھتا ہے کہ جناح نے ایسے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا جو ٹوٹے ہوئے صوبوں پر مشتمل نہ ہو۔ڈاکٹر عائشہ جلال کے مطابق جب ماؤنٹ بیٹن نے جناح کو نامکمل پاکستان کی پیشکش کی تو جناح نے کوشش کی کہ اس کو اس اقدام سے باز رکھ سکیں لیکن اس نے جناح کو دھمکی دی کہ آپ پاکستان سے ہمیشہ کے لیے ہاتھ دھو بیٹھیں گے تو جناح نے بڑے استقلال سے جواب دیا جو کچھ ہونا ہے ہو جائے۔

ایک ٹی وی پروگرام میں ہندوستان کے آخری وائسرائے نے جہانبانی کے متعلق اپنا نظریہ بیان کیا کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ ہر چیز کا دارومدار ذاتی تعلقات کی نوعیت پر ہوتا ہے۔وائسرائے کی بیوی لیڈی ایڈوینا کے پنڈٹ نہرو سے جس قسم کے تعلقات تھے اس سے سارا ہندوستان آگاہ تھا.جب نہرو نے نیو دہلی ائیر پورٹ پر پریس کے سامنے ایڈوینا کا منہ چوما تو اس نے سارے برطانوی ہندوستان کو چونکا دیا۔

ایان اسٹیفنز کی رائے میں لیڈی ماؤنٹ بیٹن نے بڑے زور و شور سے نہرو اور اس کے مقاصد کے حق میں رائے ہموار کرنے کی کوشش کی اسکے جناح کے بارے میں بے رحم جملوں اور اسکی نہرو سے پرجوش محبت نے وائسرائے کے گھر اور دفتر میں جناح کے خلاف متفقہ عناد کو مزید تقویت پہنچانے کا کام کیا۔یہ قدرتی امر تھا یہ احساسات برٹش انتظامیہ پر اثر انداز ہو رہے تھے۔

فلپ زیگلر لکھتا ہے کہ ماؤنٹ بیٹن بہت جلد باز تھے، ہمیشہ غلط مقام پر غلط وقت پر پہنچ جاتے تھے، وہ اپنے آپ کو ہمیشہ ہالی وڈ کا ہیرو خیال کرتےاور وہ تاج برطانیہ کا آخری امپیریل ایکشن ہیرو ہی ثابت ہوئے، ایک ایسے تنازع کا آغاز کر گیا جس پر لاکھوں لوگ اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔

اکبر ایس احمد لکھتے ہیں کہ انڈیا کو آزادی دینے کے معاملے میں ماؤنٹ بیٹن کو وائسرائے بنانا صرف ان کا شاہی خاندان کا فرد ہونے کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ 1946ء میں نہرو ماؤنٹ بیٹن فیملی سے سنگا پور میں مل چکا تھا اور تینوں میں ذہنی ہم آہنگی پیدا ہو چکی تھی۔

جیول ان دی کراؤن میں کہا گیا ہے کہ ہم بالکل بے بس تھے، افسوس ہم نے ہندوستان میں اپنی تین سو سالہ موجودگی کے بعد اسے یہ چاروں طرف پھیلا مکروہ، خونی اور احمقانہ انتشار دیا، غیر منصفانہ تقسیم ہند کے تلخ اثرات کا سایہ اب بھی باقی ہے۔

انگریزوں کا یہ انخلا زیادہ منظم اور باوقار ہو سکتا تھا اگر دہلی میں ماؤنٹ بیٹن سے کوئی کم جلد باز، کم جذباتی اور  غیر جانبدار وائسرائے ہوتا۔

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔