آزاد پاکستان کی 72ویں بڑی عید

والٹیئر ایک دن بیٹھا اپنے دوست سے خوش گپیاں کر رہا تھا کہ اس کا بچہ کھیلتا ہوا سامنے آ گیا، اس نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے یہ علم ہو جائے کہ یہ بڑا ہو کر ادیب بنے گا تو میں اسے اسی وقت گولی مار دوں۔

ہمارے بزرگوں کا خیال تھا کہ یہ جو لکھنے لکھانے یا ادیب بننے کا معاملہ ہوتا ہے، یہ کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوتا، میرے والد جناب سعید بدر جو خود بہت بڑے ادیب ہیں، انہوں نے مجھے کبھی صحافی یا ادیب نہ بنانا چاہا بلکہ ہمیشہ میری حوصلہ شکنی کی کیونکہ ادیبوں کے مسائل عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہوتے ہیں، معاشرہ ادیبوں کو پاگل سمجھتا ہے کہ یہ کیا لوگ ہیں، کبھی بیٹھے سوچ رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، بحث کر رہے ہیں یا کتابیں پڑھے جارہے ہیں جبکہ ان مشاغل سے کوئی دنیاوی فائدہ نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں کہ صحت مند معاشرہ ادیبوں کے کام میں مداخلت نہیں کرتا، ادیب معاشرے کا ایک انتہائی حساس فرد ہوتا ہے، وہ نارمل انسانی رویے کا مالک نہیں ہوتا، اسی لیے اکثر اس کے اپنے گھر والے یا قریبی دوست بھی، اس کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں، اسی لیے وہ اپنی ذات کا تنہا مسافر ہوتا ہے جس کی منزل بھی تنہائی ہے، اسد اللہ خان غالب کیا خوب کہہ گئے ہیں

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

میں بھی اس بے حس معاشرے کا ایک حساس فرد ہوں، 14 اگست 1947ء بمطابق 27 رمضان المبارک 1366ھ کو پاکستان برطانوی سامراج سے آزاد ہوا جسے 70 برس گزر گئے جبکہ ہجری سال کے لحاظ سے ہم اللہ کی رحمت سے آزاد پاکستان میں 72ویں بڑی عید منا رہے ہیں لیکن برطانوی سامراج کے خوفناک تہذیبی اور ثقافتی اثرات سے آج تک ہم باہر نہیں آ سکے، ہم پر آج گورا انگریز  نہیں بلکہ کالا دیسی صاحب حکومت کر رہا ہے جس کو لارڈ میکالے کی سفارشات کی روشنی میں سامراجیت نے تیار کیا تھا، آج بھی لارڈ صاحب کا ہی دور ہے، کرپشن، لوٹ مار، بے ایمانی،ڈھٹائی، ذخیرہ اندوزی اسلام کے نام پر حاصل کی گئی اس مملکت میں عام ہے۔

صبح بڑی عیدہے، اس میں جانوروں کی قربانی ہو گی اور گوشت پکانے کے لیے جو سبزی ترکاری چاہیے، وہ ایک ماہ سے ذخیرہ کی جا چکی تھیں، اب چار گنا داموں پر فروخت کیا جا رہا ہے، رمضان المبارک سے ایک ماہ پہلے تمام اشیاء مہنگی کر دی جاتی ہیں، صاف پانی کا گلاس تک میسر نہیں ،مذہب کے نام ہر ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں ،علاقائیت ہمارے اذہان میں رچ بس گئی ہے،ہم پنجابی، سندھی، بلوچی، کشمیری اور پختون تو ہیں لیکن پاکستانی نہیں ہیں۔

اب تو ہم پنجابی بھی نہیں ہیں، پنجاب میں آ جاؤ تو جنوبی پنجاب اور تخت لاہور پر لڑے جا رہے ہیں، ہمارا معاشرہ اوپر سے نیچے تک تقسیم در تقسیم کا شکار ہے، سمجھ نہیں آتی کہ اللہ اور رسول کی حرمت پر قربان ہو جانے والے لوگوں کے ملک میں، ڈاکٹر کس قسم کے مسیحا ہیں جو مریضوں کو مرتا چھوڑ کر اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے سڑکیں جام کیے بیٹھے ہیں۔

دو نمبر ادویات کی روک تھام کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں، کتوں، گدھوں اور حرام جانوروں کا گوشت فروخت کیے جا رہے ہیں، ایک دوسرے کا حق مار رہے ہیں، اقربا پروری ہمارے یہاں عام ہے، ذرا سی بارش پورے ملک کے بجلی اور سیوریج کے نظام کو درہم برہم کر دیتی ہے، اسپتالوں میں مسیحا نہیں قصائی بیٹھے ہیں، ادویات کے نام پر موت تقسیم کی جا رہی ہے، امیر امیر سے امیر تک اور غریب غریب سے غریب تر ہوئے جا رہا ہے، سالوں کسی کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا ،جھوٹے گواہ عام مل جاتے ہیں، رشوت کی اس ملک میں کوئی روک تھام نہیں ہے۔

میں کہتا ہے کہ ملک میں ایسا کوئی کام نہیں جو پیسے سے نہیں ہو سکتا، ہر شخص بکاؤ ہے، ہر شخص کی قیمت ہے، یہ حالت ہے ایک ایسے ملک کی جس میں کل صبح لاکھوں جانور قربان کیے جائیں گے لیکن اسی ملک میں کل لاکھوں بیٹیاں صرف اس وجہ سے گھروں میں بیٹھی ہوں گی کہ ان کے والدین کے پاس ان کو رخصت کرنے کے لیے جہیز نہیں ہے، لاکھوں افراد اسپتالوں کی کمی کی وجہ سے موت کے منتظر ہوں گے، آخر ان سب کا جرم کیا ہے کہ وہ اسلام کے نام پر حاصل کردہ اس ملک کے شہری ہیں۔

کاش ہم امن اور سلامتی کے لیے آئے اسلام کا اصل پیغام سمجھ سکتے، اسلام کی اصل روح کو سمجھ سکتے تو آج آزادی کے 70سال بعد صاف پانی کی ایک بوند کو نہ ترس رہے ہوتے، لاکھوں افراد جعلی ادویات کی نذر نہ ہوئے ہوتے، ہم حج عمرے تو کر رہے ہیں لاکھوں جانور بھی قربان کر رہے ہیں لیکن اللہ کو ناراض کئے بیٹھے ہیں کیونکہ 70ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا رب ان تمام افراد کی مظلوم جانوں کا خون ناحق معاف نہیں کرے گا، اقبال کہتے ہیں کہ

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغاں بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ مسلماں بھی ہو

ایک اور جگہ فرماتے ہیں

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔