بلاگ
Time 21 اکتوبر ، 2017

کیا نواز شریف پارٹی قائم رکھ سکتے ہیں؟

نوازشریف کا ماننا ہےکہ پارٹی ختم ہوئی ہےاور نہ ہی ان کی سیاست، اور آئندہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن ) کی قیادت سنبھالنے کے لیے مرکزی سیاست میں آنے کا ان کا اعتماد بھی قائم ہے۔

ان کے چند قریبی ساتھی کچھ اور ہی سوچتے ہیں اور مانتے ہیں کہ موجودہ سیاسی بحران اور پی ایم ایل (ن) کی مشکلات کافی سنجیدہ ہیں اور پاکستان مسلم لیگ (ن ) کو ’ٹھیک‘ رکھنے کے لیے کچھ اہم فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سوچ اور مستبقل کے چیلنجز کے ساتھ نواز شریف نے 24 اکتوبرکوواپسی کا فیصلہ کیا، نیب عدالت میں پیشی سے دودن قبل ان پر، ان کی بیٹی اور دامادا کیپٹن (ر) صفدرپر فردِجرم عائد کی گئی جب کہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار بھی نیب میں ٹرائل کاسامنا کررہے ہیں۔

نواز شریف جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر بھی ہیں اور سابق وزیراعظم بھی، انہیں دو اہم چیلنجز کاسامنا ہے اورساتھ ہی انہیں پارٹی کے لیے مسقبل کا لائحہ عمل بھی طے کرنا ہے۔ پہلا، اتنے زیادہ مقدمات کاسامنا کیسے کرنا ہے اور دوسرا، ان کی احتجاجی تحریک، جو یقیناً ان کی اپنی حکومت کے خلاف نہیں ہے لیکن بظاہر ان کا احتجاج سپریم کورٹ کے فیصلے اور نیب میں جاری ٹرائل کےخلاف ہے۔

ان مشکلات کاسامنا کرنے کے لیے نوازشریف کے لیے پہلا اور ضروری کام پارٹی کو اصلی حالت میں برقرار رکھنا ہے۔

اگرچہ پارٹی میں کوئی فارورڈ بلاک نہیں ہے لیکن اندرسے ناراض آوازیں اب سامنے آرہی ہیں۔ نواز شریف کے لیے پریشان کن بات دوپارٹی رہنماؤں کے درمیان اختلافِ رائے ہے، ان میں شہباز شریف اور چوہدری نثارعلی خان شامل ہیں۔

لہٰذا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر سے ہی نواز شریف کو ایسے قریبی ساتھیوں کی جانب سے بحران کا سامنا ہے جنہوں نے مشکل وقت میں اُن کاساتھ دیا۔ پارٹی کے اندر دوسرے گروہ میں وہ لوگ شامل ہیں جو 2008 کےبعد یا 2013 کے انتخابات کے بعد پارٹی میں شامل ہوئے۔ صورتحال کا سامنا کرنے اور خاندان میں بحران کےحل کی حکمت عملی پر ابھی تک دونوں شریف ہم خیال ہیں، کوئی بڑی مہم چلانا اور مکمل محاذآرائی کرنا نوازشریف کے لیے بہت خطرناک ہوگا۔

لہٰذا بحران پر قابو پانے کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما کے لیے سب سے اہم کام یہ ہے کہ پارٹی کے سخت اور نرم موقف رکھنے والوں کو ایک مشترکہ ایجنڈے پرجمع کیاجائے۔ نوازشریف نے ماضی میں بھی ٹرائل کا سامنا کیا تھا لیکن وہ جنرل(ر) پرویز مشرف کے ماتحت فوجی آمریت کے دور میں تھا۔ آج انہیں کرپشن کے سنگین الزامات کا سامنا ہے اور 28 جولائی کو پہلے ہی سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ انہیں نااہل قراردے چکا ہے اور اب وہ ایسی نیب عدالت میں ٹرائل کاسامنا کررہے ہیں جسے 6 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کے احکامات دیئے گئے ہیں۔

لہٰذا الٹی گنتی شروع ہوچکی ہےاور مقدمہ 19مارچ 2018 کو مکمل ہوجائے گا، اور اتفاق سے اس وقت سینٹ کے انتخابات بھی ہوں گئے۔ وہ خبریں جو میں نے گزشتہ چند دنوں میں جمع کی ہیں اگر وہ سچ ہیں تو پاکستان مسلم لیگ (ن) میں سب کچھ اچھا نہیں ہے اور اب پالیسی کے معاملات میں اختلاف بڑھتا جارہاہے۔

بال اب نواز شریف کے کورٹ میں ہے اور اب پارٹی میں اورسب سے بڑھ کر خاندان میں انھیں کچھ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔

واضح طور پر پارٹی پالیسی معاملات میں سخت گیر اور نرم گوشہ رکھنےوالوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ نوازشریف خود مانتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ جی ٹی روڈ والی پارٹی صحیح راستہ تھا کیونکہ ان کا مانناہے کہ پنجاب سے کچھ مثبت نتائیج حاصل کرنے کے لیے کچھ لوگ ان کی سیاست کو دفن کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کو تقسیم کرناچاہتے ہیں۔

تقسیم شدہ پی ایم ایل (ن) نہ صرف ان کے مرکزی مخالف عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے سودمند ہوگی بلکہ چوہدری شجاعت حسین کی زیرقیادت پی ایم ایل کےدھڑوں کےلیےبھی فائدہ مندہوگی اور کچھ نشستیں پی پی پی کوبھی مل سکتی ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) کو کمزور کرنے کے لیے مذہبی جماعتوں کااتحاد بنانے اورجہادی تنظیموں کو سیاست کے مرکزی دھارے میں لانے کی کوشیشیں بھی انہیں نظر آرہی ہیں۔ پارٹی میں دوسری سوچ، جس کی نمائندگی شہباز شریف، چوہدری نثارعلی خان اور حتیٰ کہ راجہ ظفرالحق جیسے لوگوں کرتے ہیں، یہ سب نواز شریف کوقائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ کوئی بھی ایسی حرکت جس سے سسٹم ڈی ریل ہو، پاکستان مسلم لیگ (ن) کیلئے تباہ کن ہوگی، کیونکہ پارٹی کے کئی رہنما بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا نہیں کرپائیں گےاور اس طرح پارٹی مارچ 2018 میں سینٹ اور عام انتخابات جیتنے کا موقع گنوا دے گی۔

تاہم ان دونوں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ اس عدالتی بحران سے باہرکیسے نکلا جائے ،خاص طورپر نیب ریفرینسز سے۔ ذرائع کاکہناہےکہ بڑے شریف صاحب کامانناہے کہ ان کی سیاست کو دفن کرنےکافیصلہ ہوچکاہے اور مصالحت یا پیشہ ورانہ طریقے سے معاملات سےنمٹنے کی کوئی پالیسی انہیں صورتحال سے بچا نہیں سکتی۔

نواز شریف کے قریبی ساتھی سمجھتےہیں کہ ان کا یقین ہے کہ اگر 28 جولائی کےنااہلیت کےعدالتی فیصلے کے خلاف انہوں نے احتجاج نہ کیاہوتا اور جی ٹی روڈ کا راستہ اختیار نہ کیاہوتا تو پاکستان مسلم لیگ (ن) ختم ہوچکی ہوتی۔

نواز شریف کایہ بھی خیال تھا کہ جی ٹی روڈ کے راستے نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں کو مزاحمت کرنے کے لیے ایک نئی زندگی دی ہے اور وہ تاحال پُراعتماد ہیں کہ وہ ناصرف پارٹی بچانے کے قابل ہوجائیں گےبلکہ پارٹی کو اصلی حالت میں قائم بھی رکھیں گے۔

نواز شریف کے لیے ریاض پیرزادہ یا ظفرعلی شاہ جیسے ناراض لوگ مسئلہ نہیں ہیں بلکہ حقیقی اندرونی بحران جس سے نمٹنے میں انہیں مشکل پیش آرہی ہے، وہ شہباز شریف کی پوزیشن ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو بھی مقدمات کا سامنا ہےلیکن انہیں ٹنل کے آخر میں کچھ روشنی نظر آرہی ہے، انہوں نے اپنے بڑےبھائی نواز شریف کو ان کےسخت گیرسیاسی موقف پر ںظرثانی کرنےکا مشورہ دیاہے۔

ذرائع کہتے ہیں کہ شہباز شریف اپنےبھائی کےخلاف بغاوت نہیں کریں گےنہ ہی چوہدری نثار ایسا کریں گےلیکن اگر نواز شریف اپنے سخت گیر موقف کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں تو انہوں نے متوقع نتائج سے نواز شریف کو باخبرکردیاہے۔ جس طرح انہیں نا اہل کیاگیا، ایک تصویر لیک کرکے ان کے بیٹےکی تذلیل کی گئی اور جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جےآئی ٹی) پر اثرورسوخ کے استعمال ہونے کے سنجیدہ شکوک و شبہات نواز شریف کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔

جس طرح کی اصطلاح ان کے لیے اور ان کی حکومت کے لیے استعمال کی گئی جیسا کہ گاڈ فادر اورسسیلئین مافیا کا حوالہ وغیرہ، اس چیز نے انہیں بہت پریشان کیا۔ اس وجہ سے انہوں نے فیصلہ کیاکہ جب تک ان کا وقار بحال نہیں ہوتا وہ لڑیں گے۔

نااہل ہونے کے بعد آئینی ترمیم کے ذریعے پی ایم ایل (ن) کا صدر بننے کا ان کے فیصلہ واضح طور پر ان کے ارادے اور نافرمانی کو ظاہر کرتاہے۔ انہوں نے کچھ عرصے کے لیے سیاست چھوڑنے کاخیال پہلے ہی مسترد کردیا ہے، عدالتی فیصلے کو مکمل قبول کرلیاہے اور ممکنہ سزاکے لیے ذہنی طور پر خود کو تیارکرلیا ہے۔

نواز شریف یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی بھی ڈیل یا این آر او کی طرح کی کوئی بھی چیز ان کے باقی ماندہ سیاسی کیرئیر کو مکمل طورپرتباہ کردیں گی۔ اگرچہ انہوں نے سال 2000 میں جلاوطنی کی ڈیل کبھی قبول نہیں کی تھی اس بار انہوں نے لڑنے یا الجھنے کا فیصلہ کیاہے۔

نواز شریف کاجو بھی موقف ہوگا وہ ہی پی ایم ایل (ن) کاہوگا، لیکن بالآخر اس کا فیصلہ انپوں نے ہی کرناہے کہ ایک ایسی صورتحال میں اپنے منصوبے کا نفاذ کیسے کرناہے جب آنے والے دنوں میں مزید ناراض افراد سامنے آئیں گے۔

صحیح یا غلط، آئی بی کے مبینہ خط نے پارٹی میں مشکلات پیدا کی ہیں اور ریاض پیرزادہ جیسے لوگ جن کا سابقہ ریکارڈ وفاداریاں تبدیل کرنے والا ہے انہیں سب جانتے ہیں، لیکن اس طرح کے مزید افراد کے باعث فارورڈ بلاک بن سکتاہے۔

تاہم بہت سے ایم این اےاورایم پی اے کو تاحال سمجھ نہیں آرہی کہ پی ایم ایل (ن) کو چھوڑنے انہھیں فائدہ ہوگا یانہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وفاق اور پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

اگر نواز شریف، شہباز شریف اور چوہدری نثارعلی خان کو قائل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ہمیں ایک مختلف پی ایم ایل (ن) نظر آئے گی لیکن اپنا گھر ٹھیک کیے بغیر محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنا شریف اور پی ایم ایل (ن) کے لیے تباہ کن ہوگا اور عمران خان اور خاص طورپر تحریک انصاف کے لیے رحمت ہوگا۔ گیند نواز شریف کے کورٹ میں ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔