04 اپریل ، 2015
کراچی.....رفیق مانگٹ.....دنیا بھر کا 99فیصد الیکٹرانک ڈیٹا سمندر میں بچھی کیبلز کے ذریعے منتقل کیا جاتا ہے۔ اس ڈیٹا میں بین الاقوامی کالیں، انٹرنیٹ کا استعمال، ٹیکسٹ میسجنگ شامل ہیں۔ سمندری کیبلز کے ذریعے ڈیٹا کی منتقلی کا راستہ سیٹیلائیٹ نشریات سے آٹھ گنا تیز ہے۔ امریکی جریدے نیوز ویک کے مطابق سمندر میں زیر آب بچھی کیبلز کے ذریعے 99فیصد بین الاقوامی ڈیٹا منتقل کیا جاتا ہے۔ وائرلیس اور سیٹلائٹ سے نشریاتی دنیا میں ہمارے الیکٹرانک مواصلات کا سب سے زیادہ انحصار اب بھی تاروں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی کالیں، ٹیکسٹ پیغامات اور انٹرنیٹ کی ٹرانسمیشن کی اکثریت سمندر کی تہہ میں کیبلز کے ذریعے پہنچائی جاتی ہے، جو تمام براعظموں پر پھیلی ہوئی ہے۔ لوگوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ تمام ٹرانس اوشنیک ڈیٹا ٹریفک کا 99فیصد سمندر میں بچھی کیبلز کے ذریعے ہوتی ہے۔ ماضی میں ایس مثالیں بھی سامنے آتی رہی کہ ان کیبلز کے ذریعے گفتگو کو ٹیپ کیا جاسکتا ہے۔ زیر سمندر ان کیبلز سے ماضی میں سرد جنگ کے دوران امریکا نے روسی بات چیت کو ٹیپ کیا تھا۔ سمندر میں پہلی کیبل کو 1860میں بچھایا گیا۔ یہ کیبلز بنیادی طور ٹیلی گراف کے لئے استعمال کی جاتی تھی، پھر 1950میں ان کی جگہ ٹیلی فون کی تاروں کو بچھا دیا گیا۔ 1980میں فائبر آپٹک کیبلز بچھائی گئی، جو روشنی کی رفتار سے معلومات فراہم کرتی ہے۔ زیر سمندر ان کیبلز کی سب سے تباہ کن ناکامی کا سامنا 2006میں تائیوان میں آنے والے 7شدت کے زلزلے سے رونما ہوا تھا، جہاں آٹھ مختلف قسم کی کیبلز گزرتی تھی، جس نے چین کی طرف جانے اور آنے والے انٹرنیٹ ٹریفک کو بری طرح متاثر کیا۔ تائیوان میں ان کیبلز کی مرمت پر کیبلز کے گیارہ بحری جہاز لگے، جنہوں نے 49دنوں میں ان تاروں کی مرمت کی۔ 2008میں مصر کے ساحل پر دہشت گردی یا تخریب کار ی سے ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے چھ کروڑ بھارتی، ایک کروڑ بیس لاکھ پاکستانی، ساٹھ لاکھ مصری، 47لاکھ سعودی صارفین متاثر ہوئے تھے۔