20 اگست ، 2015
اسلام آباد.......چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاہےکہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنے کابھی کہا جاتا ہے اور اداروں کو پیسے بھی نہیں دیےجاتے، اگر پیسے نہیں ہیں تو ادارے بند کر دیے جائیں۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ایف آئی اے کو تفتیش کی مد میں کم بجٹ مختص کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے پاکستانیوں کوغیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھجوانے پر برہمی کااظہارکرتےہوئے کہاکہ پاکستانی شدید مشکلات کےبعد سالانہ ساڑھے اٹھارہ ارب ڈالر پاکستان بھجواتے ہیں، اگر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا نمائندہ پاکستان آئےتو وزیر ان کے آگے پیچھے پھرتے ہیں۔ ایف آئی اے کی جانب سے عدالت کوبتایا گیاکہ ادارے کو تفتیش کی مد میں سالانہ پندرہ لاکھ روپے کا بجٹ ملتا ہے، اس پر چیف جسٹس نے حیرت کااظہارکرتےہوئے کہاکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹی وی چینلز اور ریڈیو پر نشریات چلائی جاتی ہیں، اگر ایف آئی اے کو اتنے پیسے دینے ہیں تو ادارہ بند کر دیا جائے۔ بعدازاں عدالت نے وفاق سے کل (جمعہ ) تک تحریری جواب طلب کیاکہ کیا ایف آئی اے کے لیے مختص بجٹ کافی ہے؟اورکیا ایف آئی اے اپناکام ٹھیک طریقے سے کر رہا ہے ؟