15 اکتوبر ، 2015
کراچی.......کیا صدر ایوب نے 62 میں کشمیر کی آزادی کا موقع گنوادیا تھا؟ چین ہند جنگ کے دوران پاکستان بھارت پر حملے کی بہترین پوزیشن میں تھا، امریکا نے روکا تو ایوب خان نے کشمیر مانگ لیا، نہ صرف امریکا بلکہ برطانیہ نے بھی بھارت پر دباؤ ڈالنے کا وعدہ کرلیا، سیز فائر کے بعد مکر گئے، سابق امریکی سی آئی اے اہلکار بروس ریڈل کی نئی کتاب سے اقتباس۔
بروس ریڈل نے اپنی نئی کتاب میں لکھا ہے کہ سابق صدر ایوب خان نے انیس سو باسٹھ میں بھارت پر حملے کا موقع ضائع کردیا ، ایسا حملہ جو بھارت کو چاروں شانے چت کردیتا، ایسا حملہ جو بھارت کی نبض پر ہاتھ رکھ دیتا، ایسا حملہ جس کےبعد بھارت کشمیر بھی دینے پر راضی ہوجاتا، لیکن پاکستان نے ایسا نہیں کیا اور امریکا کی طرف سے کشمیر کے معاملے پر بھارت پر دباؤ ڈالنے کی یقین دہانی پر حملہ نہیں کیا۔
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سابق اہلکار بروس ریڈل نے اپنی نئی کتاب میں انکشاف کیا ہےکہ انیس سو باسٹھ میں پاکستان کےصدر ایوب خان نے چین کے ساتھ مل کر بھارت پر حملہ نہ کرنے کے بدلے کشمیر کا مطالبہ کیا تھا، جے ایف کیز، فارگاٹن کرائسس کے مصنف بروس ریڈل تیس سال تک سی آئی اے کے ساتھ کام کرتے رہے اور چار امریکی صدور کے مشیر رہے ۔
کتاب کے مطابق انیس سو باسٹھ میں جب چین نے بھارت پر حملہ کیا تو اسوقت پاکستان بھی بھارت پر پوری طرح حملے کی پوزیشن میں تھا ، اس ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے امریکا نے پاکستان سے رابطہ کیا تو پاکستان کے صدر ایوب خان نے حملہ نہ کرنے کےلیے امریکا کے سامنے یہ شرط رکھ دی کہ کشمیر پاکستان کے حوالے کردیاجائے۔
اس شرط کو امریکا نے اپنے لیے بلیک میلنگ تصور کیا اور پاکستان کو جواب دیا کہ چین بھارت جنگ کے خاتمے پر بھارت پر دباؤ ڈالا جائے گا ، لیکن جنگ ختم ہوتے ہی امریکا کا رویہ پھر پاکستان کے ساتھ بدل گیا اور اس نے پاکستان کو جواب دیا کہ اب بھارتی حکمران نہرو اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اپنی حکومت کی طرف سے کشمیر پر کوئی فیصلہ کرسکیں ۔
بروس ریڈل نے لکھا ہے کہ اس کے باوجود پاکستان کے بھارت پر حملہ نہ کرنے کی یہی وجہ تھی کہ پاکستان بیک وقت امریکا اور برطانیہ کو ناراض کرکے بالکل ہی تنہا ہوجاتا۔ امریکا اور برطانیہ نے پاکستان کو یقین دلایا کہ چین اور بھارت کی جنگ کے خاتمے پر بھارت کے ساتھ بات چیت کرکے مسئلہ کشمیر کا حل نکالیں گے ، لیکن جنگ کے بعد نہرو کی حکومت پر گرفت اتنی کمزور پڑچکی تھی کہ کشمیر کے معاملے پر کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھے۔