03 نومبر ، 2015
کراچی …واصف شکیل …ملک میں زلزلے کے بعد ہونے والی تباہی کے اثرات مکمل طور پر سامنے آگئے ہیں۔ مالی نقصانات کیلئے سروے جاری ہے جبکہ 300کے قریب افراد جاں بحق اوردو ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ کیونکہ زلزلہ ملک کے انتہائی دشوار گزار اور پہاڑی علاقوں میں آیااس لئے وہاں سے معلومات کے پہنچنے میں کافی وقت لگا۔
یہی کچھ اکتوبر2005میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں ہوا تھا جب دو سے تین دن کے بعد اصل صورت حال سامنے آئی۔ٹیکنالوجی کی ترقی سے اب ہمارے پاس ایسے ٹولز آگئے ہیں جس سے کسی بھی ناگہانی آفت میں متاثرہ لوگوں تک پہنچنا اور ان کے مسائل سے مکمل آگاہی فوری طور پر مل سکے۔
سوشل میڈیا اس سلسلے میں ایک اہم اور قابل اعتماد ذریعہ بن کر سامنے آیا ہے۔ سوشل میڈیا نے ذرائع ابلاغ کو ایک نئی جہت بخشی ہے۔اب کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں لوگوں تک فوری معلومات پہنچانے اور متاثرہ افراد کی مشکلات سے آگاہی میں قدرے آسانی ہوگئی ہے۔
اگر کوئی حادثہ رونما ہو تو چند ایسے سوال ہیں جو ہمیشہ پوچھے جاتے ہیں مثلاً کیا ہوا ہے؟ کہاں ہوا ہے؟ کیا میرے رشتہ دار، دوست خیریت سے ہیں؟ اور کیا میری املاک کو توکوئی نقصان نہیں ہوا؟ ہم کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں؟
سوشل میڈیا ایک ایسا ذریعہ ہے جو ایسی صورت حال میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔چترال کے ڈپٹی کمشنر اسامہ احمد وڑائچ ایک نوجوان سرکاری افسر ہیں جنہوں نے ٹوئٹر کا استعمال کیا اور مستقل اپنے ٹوئٹر اکاوٴنٹ سے ضروری معلومات فراہم کرتے رہے۔ وہ لوگ جو چترال کے سفر پر جاچکے ہیں اس بات سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ اس علاقے میں زندگی کتنی مشکل ہے اور معمولی سا حادثہ یا آفت پریشانی میں کئی گنا اضافہ کردیتی ہے۔26 اکتوبرکی دوپہر تقریباً سوا دو بجے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے اور صرف ایک گھنٹہ بعد ان کی جانب سے اپنے ضلع کی پہلی اپ ڈیٹ جاری کی گئی جس کے مطابق 12افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس سوال پر کہ کیا ٹوئٹر کو استعمال کرنا کسی منصوبہ کے تحت تھا یا اتفا قیہ؟ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ میں پہلے سے ٹوئٹر استعمال کررہا تھا تو مجھے اس کی افادیت کا اندازہ تھا اسی لئے میں نے فوراً اس کے ذریعے اطلاعات جاری کرنا شروع کردیں۔ اس علاقے میں چونکہ شرح خواندگی قدرے بہتر ہے ،مقامی لوگ ٹوئٹر اور فیس بک کااستعمال کثرت سے کرتے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ ہمیں اسکا بہت اچھا ریسپانس ملا اور لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا۔خاص طور پر بیرون ملک بسنے والے لوگوں نے اپنے پیاروں کی خیریت جاننے کیلئے ٹوئٹر پر ہم سے رابطہ کیا۔
اسامہ کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کا استعمال ایمرجنسی میں کافی مدد گار ثابت ہوتا ہے اور لوگوں کے مسائل جاننے اور ان تک معلومات کی رسائی بہت سہل ہو جاتی ہے۔
سوشل میڈیا کمپنیوں نے قدرتی آفات اور حادثات کی صورت میں خاص ٹولز فراہم کیے ہیں جس کے ذریعے لوگ اپنی خیریت اور سرکاری امدادی ادارے مشکل میں پھنسے لوگوں تک مفت میں معلومات پہنچا سکتے ہیں۔ ان ٹولز میں ”فیس بک سیفٹی چیک“،”گوگل پرسن فائنڈر“،”ٹوئٹر الرٹس“ وہ چند ٹولز ہیں جوخاص ایسے ہی حادثات کی صورت میں ایکٹو کیے جاتے ہیں۔
فیس بک سیفٹی چیک
جہاں بھی کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے یا قدرتی آفت آتی ہے، فیس بک اس پورے علاقے میں موجود تمام یوزرز کے لیے ایک خاص سہولت فراہم کرتا ہے جسے ”فیس بک سیفٹی چیک“ کہتے ہیں۔ فیس بک آپ سے معلوم کرتا ہے کہ اگر آپ خیریت سے ہیں تو کلک کردیں ،اسی طرح آپ کے تمام دوستوں کو آپ کی خیریت معلوم ہو جائے گی،بعینی جب آپ کے دوست،احباب اس چیک باکس کو مارک کریں گے آپ کو بھی ان کی خیریت معلوم ہو جائے گی۔ یہ سہولت پہلی بار2011میں جاپان میں آنے والے زلزلے اور سونامی کے بعد جاپانی انجینئرز نے تیار (ڈیولپ) کی تھی۔ اس کے بعد سے متعدد بار اس سہولت کا فائدہ اٹھایا جا چکا ہے۔
گوگل پرسن فائنڈر
گوگل پرسن فائنڈر فیس بک سیفٹی چیک کے مقابلے میں زیادہ تفصیلی ڈیٹا جمع کرتا ہے اور پھر اس معلومات تک امدادی اداروں حکومتوں،میڈیا اور دیگر کو رسائی دیتا ہے۔ گوگل کسی بھی بڑے حادثے کی صورت میں متاثرہ علاقے میں اسے ایکٹو کر دیتا ہے۔اس کو استعمال کرنے کے دو طریقے ہیں ایک تو یہ کہ آپ کو جس کے بارے میں بھی معلومات درکار ہوں اس کے بارے میں فارم پر کر دیں یا پھر اگر آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو آفت زدہ علاقے میں ہے اور محفوظ ہے تو بھی معلومات کے ساتھ فارم پر کردیں۔
گوگل ان تمام معلومات کو ایک ڈیٹا بیس میں فون نمبر ،ای میل، اور ا?خری معلوم لوکیشن جگہ کے ساتھ جمع کرکے ساٹھ دن کیلئے عام کردیتا ہے ،اس دوران یوزرز کے پاس یہ انتخاب بھی ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کے بارے میں اپ ڈیٹس سبسکرائب کرلیں۔ ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کے مطابق یہ پروگرام75زبانوں میں کام کرتا ہے جس میں اردو بھی شامل ہے اور گوگل کا کہناہے کہ ادارہ پشتو اور دری زبانوں پر بھی کام کر رہا ہے اور جلدی ہی یہ سہولت افغانستان میں رہنے والوں کو بھی فراہم کردی جائے گی۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں رہنے والے اگرصفر تین ایک تین۔پانچ چھ آٹھ دو تین سات نو پر ایس ایم ایس کریں تو ان کو مطلوبہ معلومات مل جائے گی۔مثلاً اگر آپ کو اکرم نامی شخص کی تلاش ہے تو انگریزی میں ”اکرم سرچ“ لکھ کرمندرجہ بالا نمبر پر ایس ایم ایس کردیں یا اگر آپ اکرم ہیں اور خود کو ڈیٹا بیس میں شامل کرنا چاہتے ہیں توانگریزی میں ”اکرم اے ایم ایل “لکھ کر ایس ایم ایس کردیں۔
ٹوئٹر الرٹس
ٹوئٹر الرٹس سروس صرف متعلقہ’ اتھورائزڈ‘ اکاوٴنٹ کو ہی فراہم کی جاتی ہے جن میں ریسکیو ادارے ،قانون نافذ کرنے والے اداے،سول ایڈمنسٹریشن،این جی اوز شامل ہیں۔ایمرجنسی کی صورت میں یہ ادارے ابتدائی معلومات ٹویٹ کرسکتے ہیں جو فالورز کو ایک مخصوص انداز میں نظر آتے ہیں اس کے ساتھ یہ ٹویٹس ایس ایم ایس کے طور پر بھی ملتے ہیں۔ ٹوئٹر نے ان اداروں کی رجسٹریشن کے لئے ایک طریقہ وضح کیا ہے۔
ڈیٹا ما وٴننگ
اس کے علاوہ بھی کسی خاص جگہ یا کسی خاص واقعہ کے بارے میں”رئیل ٹائم“ سوشل میڈیا پر آنے والی معلومات کوفلٹر کرکے کسی نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اس ڈیٹا کو جمع کرنا اور فلٹر کرکے کوئی نتیجہ اخذ کرنے کیلئے اپلیکیشنز بنائی جاتی ہیں جو اس صورت حال میں کافی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔مثلاً اگر چترال میں زلزلے سے ہونیوالی تباہی کے بارے میں آپ جاننا چاہتے ہیں تو لوکیشن ،نام یا مخصوص ہیش ٹیگ کے ذریعے معلومات اکھٹا کی جاسکتی ہیں اور انہیں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ٹوئٹر آپ کو ”ایڈوانس سرچ“ کے متعدد آپشن فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے آپ نام ،لوکیشن،تاریخ ،ہیش ٹیگ سے معلومات جمع کی جاسکتی ہیں۔ ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر موبائل نیٹ ورک میں ہی کوئی خلل پیدا ہو جائے تو یہ سب کیسے ممکن ہو سکے گا۔کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ابتدائی حکومتی اقدامات میں کمیونیکیشن نیٹ ورک کی بحالی شامل ہوتاہے اور ہمیشہ ہی ایسا نہیں ہوتا کہ موبائل نیٹ ورکس کام نہ کریں۔ ڈپٹی کمشنر چترال کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح انہوں نے معلومات کی فراہمی کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال کیا۔
کچھ حلقوں میں سوشل میڈیا کمپنیز کی جانب سے ان ٹولز کا ہماری اجازت کے بغیر کاروباری فائدے حاصل کرنے پر تشویش بھی ہے۔ حا ل ہی میں بی بی سی اردو پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انٹرنیٹ کی آزادی کیلئے کام کرنے والی کارکن صدف خان کی بابت بتایا گیا کہ فیس بک یا گوگل میں سروسز پاس نہ صرف ہمارا بے تحاشا ڈیٹا موجو د ہے بلکہ وہ اسے مسلسل مانیٹربھی کررہے ہیں۔
”قدرتی آفات میں اس طرح کی سروسزمددگار ثابت ہوتی ہیں۔ اور ان کا مقصد صارفین کا بھروسہ حاصل کرنا ہے مگر یہ اس حقیقت کو بھی اجاگر کرتی ہیں کہ صارفین کی معلومات کو کس کس طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ صارف کو غیر محفوط بناسکتا ہے۔
ان خدشات کے باوجود سوشل میڈیا کا استعمال انسانی زندگی کو محفوظ بنانے میں خاص مدد گار ثابت ہوا ہے۔