22 دسمبر ، 2015
کراچی.....افضل ندیم ڈوگر..... سندھ ہائیکورٹ نے ذوالفقار مرزا کی پیشی پر عدالت کا محاصرہ کرنے اور صحافیوں پر نقاب پوش اہلکاروں کے تشدد کیخلاف توہین عدالت کیس میں آئی سندھ سمیت 14 اعلیٰ پولیس افسران پر فرد جرم عائد کردی ۔
عدالت نے تمام ملزمان کو نام پکار کر مخاطب کیا اور اس دوران ملزمان کے وکیل کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تاہم آئی جی سندھ سمیت تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا ہے، آئندہ سماعت کل ہوگی۔
آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت عدالتی فیصلے کے مطابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی، ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو ، ڈی آئی جی جنوبی جمیل احمد ، ڈی آئی جی غربی فیروز شاہ ، ایس ایس پی کیپٹن (ر) محمد اسد، انچارج اسپیشل انوسٹی گیشن یونٹ میجر (ر) سلیم ، ایڈیشنل آئی جی لیگل فیصل بشیر میمن، ایس پی سٹی فدا حسین، ایس پی صدر ذیشان شفیق صدیقی، سابق ایس پی صدر رئیس عبدالغنی، ایس پی ہیڈکوارٹرز غربی طاہر نورانی اور سب انسپکٹر جہانگیر مہر پر فرد جرم عائد کی گئی۔
قبل ازیں ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ڈی آئی جی ساؤتھ سمیت بیشتر پولیس افسران کورٹ میں پیش نہیں ہوئے، جس پر انہیں فوری طور پر طلب کیا گیا، ایک پولیس افسر طاہر نورانی پھر بھی غیر حاضر پایا گیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ وہ عمرے پر گئے ہوئے ہیں، جس پر عدالت نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ وہ کس کی اجازت سے عمرے پر گئے ہیں۔
اس سے قبل 18 نومبر کو مذکورہ پولیس افسران کی جانب سے مانگے گئے غیر مشروط معافی ناموں کو اسی عدالت نے مسترد کردیا تھا، سماعت میں عدالت نے قرار دیا تھا 23 مئی کو پولیس کی جانب سے رجسٹرار کے حکم کی صریح خلاف ورزی کی گئی اور سندھ ہائیکورٹ کے گیٹ پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جس پر سخت تحفظات ہیں ،اس اقدام سے پولیس کی جانب سے عدالتوں پر اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہےکہ ایڈیشنل آئی جی سندھ غلام قادر تھیبو سمیت دیگر پولیس افسران کے معافی ناموں میں تضادات پایا جاتا ہے اور وہ عدالت کو مطمئن نہیں کر سکے ہیں، ان افسران کی جانب سے کہا گیا کہ انہیں رجسٹرار کا فون موصول نہیں ہوا اصل میں یہ افسران رجسٹرار کے فون سننے سے گریز کرتے رہے ۔
آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی ، ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادر تھیبو، ایس ایس پی کیپٹن (ر) محمد اسد ، انچارج اسپیشل انوسٹی گیشن یونٹ میجر (ر) سلیم ، ڈی آئی جی غربی فیزوز شاہ سمیت دیگر پولیس افسران کو 23 بار موقع دیا گیا کہ وہ توہین عدالت کی کارروائی سے بچنے کے لئے اپنے دفاع میں ذمہ داران کے خلاف کارروائی کریں مگر ان افسران کی جانب سے صرف غیر مشروط معافی ہی مانگی جاتی رہی اور ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس افسران ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی کرنا نہیں چاہتے ۔غیر مشرو ط معافی مانگتے وقت یہ بھی ثا بت کرنا ہوتا ہے کہ واقعی معافی مانگی جا رہی ہے، یہ ایک روایت ہےکہ پہلے توہین عدالت کی جائے اور پھر غیر مشروط معافی مانگ لی جائے مگر اس قسم کی توہین عدالت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
فیصلے کی نقول وفاقی وصوبائی حکومت کو بھیجی جائے اور وہ فیصلہ کریں کہ ان افسران کو عہدوں پر رہنا چاہے یا نہیں،عدالت نے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ ایڈیشنل آئی جی لیگل فیصل بشیر میمن اپنے بیان میں عدالت کو مطمئن نہ کر سکے کہ وہ اس موقع پر وہاں آئے اور ان کی موجود گی کا سبب کیا تھا ۔عدالت نے فیصل بشیر میمن کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوے 4روز کے اندراندر وضاحت طلب کر لی ہے ۔
عدالت نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ آئندہ ججوں اور سائلین کیلئے دروازہ بند نہ کیا جا ئے۔
واضح رہے کہ 23مئی کونقاب پوش پولیس اہلکاروں نے ڈاکٹر ذوالفقارمرزا کی پیشی کے دوران سندھ ہائیکورٹ کا محاصر ہ کرکے ذوالفقار مرزا کے حامیوں اور صحافیوں پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے محاصرہ ختم کرنے کی ہدایت کے باوجود محاصرہ ختم نہیں کیا گیا جس کے خلاف ذوالفقار مرزا اور صحافی نمائندوں نے ذمہ دارافسران کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ فرد جرم عائد کئے جانے کے بعد عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔