بلاگ
03 نومبر ، 2016

کیا اس بار ہماری مراد ’ بر‘ آنے والی ہے؟

کیا اس بار ہماری مراد ’ بر‘ آنے والی ہے؟

گزشتہ سالوں میں پاکستان کی سیاسی بساط پرـ’کو چیئرمین‘سے زیادہ کس نے کامیابی سے سیاسی گھوڑے دوڑائے، یہ اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ ہمارےنو وارد وزیر اعلیٰ جس طرح اہل کراچی کولندن اور نیویارک کے میئر ز کی یاد دلانے پر تلے بیٹھے تھے ،ہم گھبرا گئے کہ کہیں ’ نیا پاکستان‘ پیپلز پارٹی کاسیاسی نعرہ تو نہیں بن گیا۔۔۔ لیکن نئے وزیر کے اقتدار میں آتے ہی چشم ذودن میں کراچی پوری قوت کے ساتھ سیاسی ،سماجی اور معاشرتی تبدیلیوں کی زد میں آگیا ۔

ہمارے جواں سال وزیر اعلیٰ تبدیلیوں کے واضح ثبوت کے طور پر کبھی شہر کا طوفانی دورہ کرتے ہیں تو کبھی عوامی انداز میں صدر کے ایک مقامی ہوٹل پر چائے پراٹھے کا ناشتہ کرتے ہیں۔کبھی راہ چلتے لوگوں کی مزاج پرسی ہو رہی ہوتی ہےتو کبھی ہر گھڑی تیار کامران وزیر اعلیٰ بروقت فیصلوں اور حکومتی ذمے داروں کے بوجھ کو فضاوں میں بھی ہلکا کرتے نظر آتے ہیں۔

اہل کراچی اس لئے بھی ان کے احسان مند ہیں کہ کچرے کے ڈھیر انہیں وزیر باتدبیر بنتے ہی نظر آنا شروع ہو گئے اور ہم نےدل سے ان کی آواز کو ا پنی آواز جانا ۔ بازاروں اور شادی ہالوں کی جلد بندش کا ملتوی شدہ فیصلہ ، یہ دونوں ہی اقدام ’ توانائی بچاؤ‘ ہی نہیں ، ایک بہتر ،منظم سوچ بچار والے معاشرے کی طرف بڑھنے کا اشارہ ضرور تھے ۔

سرکار ! یقین جانیے ، تمام مائوں کے لعل آپ کے ساتھ ہیں’ بہتر کراچی ‘ ہمارا کل بھی حق تھا اور آج بھی ہے- بہتر کراچی کے لئے ہم وزیر با تدبیر کے ساتھ تعاون کرنے اور کرانے کے لئے بھی تیار ہیں۔ (کرانے سے مراد ، خاک امروہہ کے خس وخاشاک جلانے سےنہیں) ۔حضور اعلی ! گستاخی معاف، لگتا ہے ابھی تک آپکا پالا یونیورسٹی روڈ کے کھڈوں سے نہیں پڑا ۔ ہمیں پتا نہیں کیوں امید ہو چلی ہے کہ ایک دن یہ اور اس جیسے ہزاروں خستہ حال روڈ آپ کی توجہ ضرور کھنچ لیں گے ۔

گئے دنوں کی باتیں ہیں جب " جب کوئی صورت’ نظر نہیں آتی ‘ تھی اور ’ کوئی امید بر‘ نہیں آتی تھی ۔ اب ہمارے پاس ’ مراد ‘ ہے اور ہمیں مکمل یقین ہے کہ اس بار ہماری مراد’ بر‘ آنے والی ہے اوراب ہم ’ با مراد‘ ٹھہریں گےکیونکہ وزیر اعلیٰ ، عشق میں نکمے لوگ نہیں جو ’کچھ عشق کرتے ہیں اور کچھ کام کرتے ہیں ‘ اور پھر دونوں کو ہی ادھورا چھوڑ دیتے ہیں‘ ۔(فیض سے معذرت کے ساتھ) ا ب بلند آہنگ ، اعلیٰ وزیر ’ گلشن‘ کو چلانے کے لئے چلے آئے ہیں ، ہم پر یقین ہیں کہ ہماری سڑکوں کے ’ گلوں میں رنگ بھرنے لگیں گے ‘ اور ’ باد نو بہار چلنے لگے گی‘ ۔