بلاگ
09 نومبر ، 2016

یوم اقبال پر بھی قوم تقسیم کر دی گئی!

یوم اقبال پر بھی قوم تقسیم کر دی گئی!

بہت پرانی ایک کہانی ہے کہ عزت شہرت اور دولت کی آپس میں بہت دوستی تھی ۔ایک دفعہ اتفاق سے ایک جگہ جمع ہوگئیں تو ایک دوسرے سے مل کے بہت خوش ہوئیں ۔کچھ دنوں کے ساتھ کے بعد جب وقت رخصت ہوا تو انھوں نے سوچا کہ انھیں آئندہ بھی رابطے میں رہنا چاہیے۔

یہ سوچ کے دولت نے کہا کہ اگر تم کو مجھ سے ملنا ہو تو مجھے امیروں، وزیروں اور بادشاہوں کے محلات میں ڈھونڈ لینا میں آپ کو وہیں پہ ملوں گی۔

شہرت بولی کہ اگر مجھ سے ملنا ہو تو مجھے اداکاروں ، گلوکاروں ، شاعروں اور لکھاریوں میں تلاش کرنا ۔

عزت خاموشی سے یہ سب سن رہی تھی ، پھر دولت اور شہرت نے کہا ’’عزت تم بھی بتاو تمہیں ہم کہاں ملنے آئیں ؟

عزت بولی ’مجھے آپ نہیںڈھونڈ سکو گے میں جہاں سے چلی جاؤں وہاں لوٹ کے کبھی نہیں آتی ۔‘۔۔ہمارے حکمراں اس حقیقت کو شاید سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔

یوم اقبال پر بھی پاکستانی قوم تقسیم ہو گئی یا کر دی گئی۔ پاکستان کا تصور پیش کرنے والی عظیم شخصیت دانائے راز حکیم الامت شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے یوم ولادت پر وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے فیصلوں نے قوم کو تقسیم کر دیا۔ گزشتہ روز دوپہر تک چھٹی کا اعلان کر کے شام کو واپس لے لیا گیا ۔

رات گئے سب سے زیادہ متاثر تعلیمی ادارے ہوئے گزشتہ شام پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت کا کہنا تھا کہ 9 نومبر کو تمام تعلیمی اور سرکاری ادارے کھلے رہیں گے جبکہ سندھ حکومت اور بلوچستان گورنمنٹ نے اپنے اپنے صوبوں میں تعلیمی ادارے بند رکھنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔

اس سے پیشتر کے پی کے حکومت نے وفاقی حکومت کی طرف سے جاری ہونے والی چھٹی کے نوٹیفیکیشن کو فالو کرتے ہوئے صوبے میں چھٹی کا اعلان کیا تھا تاہم بعد میں وفاقی وزارت داخلہ کی طرف سے اس بیان کی تردید پر کہ وفاق نے 9 نومبر کے حوالے سے کوئی چھٹی کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا تو کے پی کے حکومت نے بھی چھٹی کا نوٹیفیکیشن واپس لے لیا۔

پنجاب میں بھی تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں نے پہلے چھٹی کا اعلان کیا اور اکثر نے پرچے بھی منسوخ کر دئیے ۔میری بچی فاطمہ کا آج اردو کا پرچہ تھا، اسکول کی طرف سے تصدیقی ایس ایم ایس کے بعد کہ یوم اقبال پر چھٹی ہو گی وہ آرام سے سو گئی۔ شام سات بجے میرے فون پرچھٹی کینسل ہونے کا میسج آیا۔ سخت تعجب ہوا ۔پرنسپل کو فون کیا تو انہوں نے بھی تصدیق کی اور کہ ا سٹاف سے رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ اکثریت کے فون بند ہیں یا دوسرے شہروں کو جا چکے ہیں۔

میری بچی نے ساری رات جاگ کر اردو کے پرچے کے تیاری کی اورا سکول میں بتایا گیا کہ پرچہ ہی کینسل کر دیا گیا ہے۔ پنجاب بھر میں یہی صورت حال رہی ۔کوئی اسکول بند رہا، کوئی کھلا رہا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور کا ایک بڑاا سکول جو ڈی سی او اور کمشنر کے تحت نیم خود مختار ہے وہ بند رہا اور نجی اسکولز کھلے رہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ جامعات اور کالجوں میں حاضری بھی کم رہی ۔

یہ صورت حال ایک لمحہ فکریہ ہے ہم سب کے لئے اور خصوصاً ارباب اختیار کے لئے۔بحیثیت ایک استاد، صحافی اور سوشل سائنٹسٹ کے میں سمجھ سکتا ہوں کہ حکومت کے کئے سیاسی مضمرات اپنی جگہ لیکن نفسیاتی طور پر اس قسم کے فیصلے قومی ہیروز کی بے توقیری کا باعث بن جاتے ہیں اور تاریخ ایسی اقوام کو اور ایسے حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کیا کرتی۔