30 نومبر ، 2016
چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے چند روز پہلے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سول اور ملٹری بیوروکریسی پاکستان کے موجودہ حا لات کی ذمہ دار ہے، ان کا اشارہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کے اتار چڑھاؤ کی طرف تھا، لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ حالات اب بہتری کی طرف گامزن لگ رہے ہیں اور اللہ پاک سے امید اچھی ہی رکھنی چاہیے،یہ ویسے بھی ہمارے ایمان کا کا حصہ ہے کہ اس کی رحمت سے کبھی بھی ناامید نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان میں قائد اعظم کی وفات کے بعد سے ایسے واقعات رونما ہوئے جس سے جمہوریت پر سے عوام کا اعتماد ختم ہو گیا یا دانستہ ایسے حالات پیدا کر دیے گئے کہ لوگوں نے سیاست دانوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتداء سے ہی بیوروکریسی نے سیاست دانوں کو ان کے باہمی تنازیات کی وجہ سے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔
جن لوگوں نے پاکستان کے ساتھ کھلواڑ کیا ان میں سیاست دان کم اور دوسرے زیادہ ملتے ہیں، البتہ بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ سول ملٹری بیوروکریسی کی بھی تمام خطائیں عاقبت نا اندیش سیاست دانوں کے کھاتے میں ڈال دی گئیں، گو سیاستدان بھی ایسے کوئی دودھ کے دھلے نہ تھے، سیاست دانوں کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو اورنگ زیب کے مرنے کے بعد بادشاہ گر سید برادران نے نااہل مغل شہزادوں کو تخت طاؤس پر بٹھا کر کیا،آج سید برادران کو سب بھول گئے لیکن مغل شہنشاہوں کا مذاق آج غیر تو غیر اپنے بھی اڑا رہے ہیں، یہ کوئی نہیں جانتا کہ اہل شہزادوں کو کس بے رحمی سے قتل کر دیا گیا، اگر ایسا نہ ہوتا تو آج تاریخ کا دھارا کسی اور رخ بہتا اور ایسا ہی کچھ پاکستان کے قیام کے بعد جمہوریت کے ساتھ ہوا۔
جس نظام دکن نے شہید میسور فتح علی ٹیپو کو انگریز کے ساتھ مل کر شہید کروایا حکومت تو اس کی بھی نہیں بچی، افسوس ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی، قائد اعظم کا پاکستان پہلے ہی دولخت ہو چکا ہے ہمیں اب خود کو متحد کرنا ہے، سیاست دان ہوں بیوروکریسی ہو، عوام ہوں، یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں۔
یہ تو طے ہے کہ جمہوریت اس ملک کیلئے ناگزیر ہے اور سب اداروں کو مل کر اسے بچانا ہے، پاکستان کو سیاست دانوں نے ہی ووٹ کے ذریعے بنایا، اس وقت بھی سیاست دانوں پر الزامات لگتے تھے جس نے اس مملکت خداداد کا خواب دیکھا اور جس نے تعبیر دی کہ کون نہیں جانتا کہ ان کو کافر تک کہا گیا، آج بھی ان بے لوث لوگوں پر کیا کیا الزام نہیں لگ رہے، لوگوں کا کیا کہنا کہ ولیوں کو بھی معاف نہیں کرتے۔
پاکستان کا قیام تاریخ کا بے حد انوکھا واقعہ ہے، بدقسمتی سے اپنے قیام کے ایک سال بعدہی مملکت خداداد اپنے بانی سے محروم ہو گئی اور تقریباً گیارہ برس تک اس کے مخصوص مزاج کے مطابق کوئی آئین نہیں بنایا جا سکا اور مملکت خداداد کی درست سمت متعین نہ ہو سکی جس کے نتائج آج ہمارے سامنے آرہے ہیں،اس دوران پاکستان پر بیوروکریسی کا مکمل راج رہا،جنرل محمد ایوب خان نے بیوروکریسی کو کھلی چھٹی دے دی اور پاکستانی سیاست میں بیوروکریسی کا نہ ختم ہونے والا کردار متعین ہو گیا۔
بیوروکریسی خواہ سول ہو یا ملٹری دونوں نے پاکستان کو اپنے اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش کی، سیاست دان بُری طرح استعمال ہوتے رہے، کچھ اُن کی اپنی نااہلی اور کوتاہیاں بھی تھیں، اگر موجودہ حالات کو دیکھیں تو سول اور ملٹری ریلیشن شپ کی ایک زبردست ڈاکٹرائن وجود میں آئی ہے جس سے پاکستان بہت جلد اپنے مسائل پر قابو پا لے گا،یہ نئی ڈاکٹرائن پرانی ڈاکٹرائن کے برعکس ہے جس میں یا تو سول نظام قائم کرنے کی کوشش کی گئی یا پھر ملٹری کی حکمرانی کا تصور سامنے آیا، نئی ڈاکٹرائن میں دونوں فریقین نے ماضی سے سبق سیکھا ہے، دیکھتے ہیں اونٹ اب کس کروٹ بیٹھتا ہے۔