05 دسمبر ، 2016
احمررحمان خان...نہ آگ سے خبردار کرنے والا الارم بجا، نہ آگ بجھانے کا کوئی مناسب بندوبست تھا اور نہ کوئی ایسا محفوظ راستہ، جو ہنگامی صورتحال میں لوگوں کو موت سے زندگی کی طرف لے جاتا۔
ہوٹل کے سیکیورٹی افسر نے الزامات رد کرتے ہوئے کہا کہ ہنگامی اخراج کے3 راستے ہیں، اموات بدحواسی اور عمارت سے کودنے کی وجہ سے ہوئیں ۔
کمشنر کراچی کہتے ہیں کہ ہوٹل میں اموات دم گھٹنے سے ہوئیں، بظاہر فائر سیفٹی سسٹم ٹھیک نہیں لگتا، تحقیقات کے بعد ایک ہفتے میں ذمے داری کا تعین کریں گے۔
آتشزدگی کے جان لیوا واقعے کے بعد ریجنٹ پلازہ ہوٹل کی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ آگ بجھانے کے تمام آلات موجود تھے، یہی نہیں بلکہ ہنگامی صورت میں ہوٹل کے اندر بین الاقوامی معیار کے مطابق ایمرجنسی ایگزٹ بھی موجود ہے، 12 اموات لوگوں کی بدحواسی اور بالائی منزلوں سے کودنے کے باعث ہوئیں۔
لیکن ہوٹل میں مقیم افراد کا مؤقف انتظامیہ سے بالکل مختلف ہے، اُن کا کہنا ہے کہ لوگوں کو خبردار کرنے کیلئے نہ تو فائر الارم بجا، نہ آگ بجھانے کا معیاری انتظام تھا اور نہ ہی کسی ایسے ہنگامی راستے کی نشاندہی کی گئی، جو محفوظ طور پر موت سے زندگی کی طرف لے جاتا۔
ہوٹل انتظامیہ بھلے کچھ بھی کہے، لیکن اس حادثے نے بہت سے سوال اُٹھائے ہیں،کہ آگ کیسے لگی اور لگ گئی تھی تو بروقت کیوں نہ بجھائی جاسکی؟
معیاری ہوٹلوں میں آگ پر قابو پانے کیلئے تربیت یافتہ عملہ لازمی ہوتاہے، لیکن کیا ریجنٹ پلازہ میں تربیت یافتہ فائرفائٹر موجود تھے؟ اگر تھے تو آگ پہلی منزل سے چھٹی منزل تک کیسے پھیلی؟
اگر ہوٹل میں عالمی معیار کا ایمرجنسی ایگزٹ موجود تھا تو آگ اور دھوئیں میں پھنسے لوگ بروقت کیوں نہ نکل سکے؟فائر الارم تھا تو بجا کیوں نہیں اور خراب تھا تو ٹھیک کیوں نہیں کرایا گیا؟
کیا ہوٹل میں آگ لگنے کی صورت میں آٹو میٹنگ فائر ایکس ٹنگوشر نصب ہیں یا نہیں؟ اور ہیں تو انہوں نے کام کیوں نہیں کیا؟
کیا ہوٹل میں کوئی فائر ہائیڈرینٹ موجود ہے یا نہیں، یہ ہیں وہ سوال جن کی تحقیقات صوبائی حکومت بھی کرے گی اور لازمی طور پر پولیس بھی۔