بلاگ
21 دسمبر ، 2016

شاندار تہذیب و تمدن کا گہوارا بوسنیا ہرزگوینا

شاندار تہذیب و تمدن کا گہوارا بوسنیا ہرزگوینا

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بوسنیا کے وزیراعظم ڈاکٹر ڈیینس زویدے وچ کی دعوت پر بوسنیا ہرز گوینا کے تین روزہ سرکاری دورے ہیں۔

نوجوانوں کے لئے یہ نام نیا ہو گا اور شاید پہلی مرتبہ ہی سنا ہو لیکن ہماری نسل کے لوگوں نے 1992 میں یہ نام پہلی مرتبہ سنا۔ میں اس وقت ایف ایس سی کر رہا تھا اور بوسنیا کے حوالے سے روزانہ ٹی وی اور اخبارات میں خبریں آ رہی تھیں جو بہت لرزا دینے والی تھیں۔ لاکھوں مسلمانوں کو صرف اس لئے شہید کر دیا گیا کیونکہ ان کا جرم صرف مسلمان ہونا تھا ۔

اسی وقت مجھے معلوم ہوا کہ بوسنیا کئی صدیوں تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا۔ اسے سلطان محمد فاتح نے 1463 میں فتح کیا اور 1878 تک یہ ترکوں کے پاس رہا ۔بوسنیا ہرزیگونیا سابق یوگو سلاویہ کی ایک جمہوریہ تھا ۔یو گو سلاویہ کے شمال میں آسٹریا اور مشرق میں رومانیہ اور بلغاریہ تھا ۔

جب یوگو سلاویہ کا خاتمہ ہوا توچھ ریاستیں قائم ہوئیں۔ ان میں سے ایک بوسینیا بھی تھی۔ اس کا رقبہ 51129 مربع کلو میٹر ہے اور کل آبادی کا 45 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے اور 32 فیصد سرب ہیں جو مسلمانوں کو برداشت نہیں کر تےجن کے ساتھ وہ صدیوں سے رہ رہے ہیں۔

سراجیوو بوسینیا کا دارالحکومت ہے جو ترکی زبان کے لفظ سرائے سے ماخوز ہے ۔ترکی میں سرائے سلطان کی قیام گاہ کو کہتے ہیں۔ سربوں نے مسلمانوں کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا نہ ہی اسلام کو بطور مذہب آج تک قبول کیا ۔

یہی وجہ ہے کہ 21 برس گزرنے کے باوجود ابھی تک اجتماعی قبریں دریافت ہو رہی ہیں جن میں بے گناہ انسانیت کو مسلمان ہونے کی سزا دی گئی تھی۔ 1945کے بعد سے مسلمانوں کو ترک مذہب پر مجبور کیا جاتا رہا۔

سن 1974 میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ماضی میں یہ علاقے مسلمانوں کی عظیم الشان تہذیبی و تمدنی روایات کے حامل رہے صرف سراجیوو میں 1100 مساجد عثمانی دور میں تھیں ۔مدرسہ غازی خسرو بیگ اور لائبریری کی ساری سلطنت عثمانیہ میں شہرت رکھتی تھی۔

مسلمانوں نے 415 برس اس علاقے پر حکومت کی۔ 1878 میں سلطان عبدالحمید خان ثانی نے برلن کانگریس میں بوسینیا سے دستبرداری کیا لکھی گویا مسلمانوں کی سزا کا آغاز ہو گیا کہ آپ اتنے روادار کیوں تھے۔

سن1992 میں اقوام متحدہ کے کہنے پر ریفرنڈم ہوا جس میں 64 فیصد آبادی نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا.16 اپریل 1992 کو اقوام متحدہ نے بوسنیا کی خودمختاری کو تسلیم کر لیا۔

سربیا نے اس پر کہا کہ بوسنیا تاریخی طور پر ہمارا حصہ ہے اس نے مانٹی نیگرو کے ساتھ اتحاد بنا کر بوسنیا پر جنگ مسلط کر دی اور لاکھوں مسلمانوں کو بےدردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ ہزاروں بے بس مسلمان بچیوں کی اجتمائی آبروریزی کی گئی ننھے بچوں کو قتل کر دیا گیا..

چار سو پندرہ سال تک اس خطے پر برسر اقتدار رہنے والی قوم کے ساتھ نام نہاد تہذیب یافتہ قوم نے کیا سلوک کیا ۔یہی 1492 میں مسلم ہسپانیہ میں ہوا۔اس کے ردعمل کے طور پر بوسنیا کے مسلمانوں نے مختلف جہادی تنظیموں میں شمولیت اختیار کر لی اور جہادی کہلائے۔