22 دسمبر ، 2016
کراچی میگا سٹی ہے، کاسموپولیٹن سٹی ہے اور اسی لئے ’منی پاکستان ‘ بھی کہا جاتا ہے ۔کاسموپولیٹن سٹی اس لئے کہ یہاں پنجاب کے بسنتی رنگوں کی بہار ہے تو لیاری میں آپ کو بلوچی دھنوں پر ہنستے مسکراتے اور رقص کرتے لوگ بھی مل جائیں گے۔
قصبہ کالونی میں پشتو لہجے کی چاشنی،کراچی کے گوٹھوں میں سندھ کی سریلی تانیں، سائیں لطیف کا کلام اور میرو غالب کی زبان کے وارث۔۔ اردو بولنے والوں کی گنجان آباد بستیاں بھی اسی شہر کی شب روز رونق کا حصہ ہیں۔
بات صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ بنگال، بہار ،حیدرآباد دکن ، بنگلور، مالا بار اور مدراس سے تعلق رکھنے والے بھی اپنی صدیوں پرانی دلکش روایات، ثقافت ،کھانوں اور مزاجوں کے ساتھ آباد ہیں۔
شاید بہت کم لوگ واقف ہوں کہ جناح اسپتال کے ساتھ مدراسی پاڑے میں تامل آبادی تقسیم سے پہلے سے رہ رہی ہے۔
اسی طرح اورنگی ٹاؤن میں بہار سے ہجرت کرکے آلے افراد کی سب سے زیادہ آبادی مقیم ہے۔ ان کامخصوص لب و لہجہ دلچسی کے سبب سارے پاکستان میں مشہور ہے ۔ اور اب تو اس کی اہمیت اس وجہ سے بھی مشہور ہوگئی ہے کہ لوگ بہار کے ذائقہ مند بہاری کباب، بہاری پیزا اور بہاری بوٹی چٹخارے لے لے کر کھاتے اور تعریف کرتے نہیں تھکتے۔
اتنا ہی نہیں بلکہ سرسوں کے تیل میں پکی دالیں ، کالے چنے اور بوٹ پلاؤ بھی بہار ی روایات کا حصہ اور کراچی کی پہچان ہیں ۔خواتین بہاری چھاپے کی ساڑھی بھی خوب دل سے پہنتی اور پسند کرتی ہیں۔یہی نہیں بلکہ آج بھی آسام ، سلہٹ اور چٹا گانگ کی چائے کو یاد کرتے اور بیرون ملک سے منگواتے ہیں خواہ یہ کتنی ہی مہنگی کیوں نہ ہوں۔
کراچی میں ملنے والی میٹھائیاں بھی جنوبی ہنداور بنگال کی یادگار ہیں۔ رس گلے، کچا گلہ، میٹھی دہی اور بنگالی پیٹھے اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ ابا کی ہنڈا ففٹی کی خریداری ہو اور مخصوص بنگالی گلاب جامن گھر نہ آئیں ، بہن کا رزلٹ ہو اور ابا کے ہاتھ میں میٹھائی کالال و نیلا ڈبہ نہ ہو۔۔۔ایسا ہو نہیں سکتا۔ ہم بچپن سے ہی ہر خوشی کو میٹھا ئی سے دوبلا کرتے آئے ہیں ۔
سن ساٹھ کی دہائی میں قائم ہونے والی مخصوص میٹھائی کی دکان اور اس کے مالک میں کوئی نسبت نہیں۔ لیکن اس کے شیرے اور کھوئے میں ڈوبے رس گلے اور کاجو برفی کی کیا ہی بات ہے۔ یقین مانیں ! کراچی میں بنگال کا سارا جادو ڈھاکہ ، بنگال اور مدراس کا مرہون منت ہے۔
نمکین کی طرف آئیں تو حیدرآباد کے کھانوں کی کیا ہی بات ہے۔ ایک بار حیدرآباد کالونی کی طرف نکل کر تو دیکھیں ۔ اپنی بریانی سے لے کر خوبانی کے میٹھے تک ۔ اچار چٹنیوں سے لے کر پاپڑتک سب دکن کی پہچان ہیں۔
بہاردآباد کا چار مینار ہی نہیں ، یہاں کی دکانوں پر بکتے ذائقے ، پہناوے اور زیورات بھی کراچی میں بسے حیدرآباد یوں کو سیدھا دکن پہنچا کر دم لیتے ہیں۔
مدراسی ذائقوں کو ہم نے مدراسی پھوپھو اور بہادر آباد پر سوز کی پر بکتے ڈوسہ سے جانا۔ شروع میں پھیکا سیٹھا لگا لیکن ہمیـں بندر اور ادرک والی بات دیر سے سمجھ آئی۔ جب جانا کہ سامبر، ڈوسا ،مصالحہ ، ایڈلی، ناریل اور چٹنیاں سادہ مدراسی تھالی کوکیسے شاہی انداز دے دیتی ہیں۔
اب تو ’ راجدھانی کی تھالی‘ کا بھی شورہے۔ سنا ہے کراچی میں ایرانی ہوٹلوں کی طرح مالا باری ہوٹل بھی تھے اور لوگ مالاباری مچھلی کے ذائقے اب تک نہیں بھولے ۔
ساؤتھ کے ذائقے ہی نہیں کچھ سبزیاں بھی بالکل الگ ہیں۔ کسی بھی بنگلہ بازار نکل جائیں پرول ، کھٹل اور کچے کیلے بکتے مل جائیں گے ۔ ہماری بچپن کی یادوں میں خالہ کے گھر میں لگے بڑے بڑے کھٹل بھی ہیں۔ جو پکنے کے بعد بالکل مچھلی کا مزہ دیتے ہیں۔ شاید کچھ لوگوں نے کچے کیلوں کے کباب اور سالن بھی کھایا ہو۔ اب ان مزے دار کھانوں میں چاہے کیرالہ کاذائقہ ہو یامدارسی مزہ ، دونوں ہی ہمیں تو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ چاول اور مچھلی کے ساتھ ناریل کا منفرد مزہ ان کھانوں کی شان بڑھادیتے ہیں۔
ٓآخر میں کچھ پہناوں کی بات کریں تو میرے پاس تو بنگال کی کانچی ورم ساڑھی بھی ہے اور آسام کی ’’ مکھلا ساڑھی‘‘ بھی۔ دونوں انڈین دوستوں کے گفٹ ہیں ۔ اب حیدرآباد کا کھڑا دوپٹہ اور وہاں کے خاص پہناوے کی منتظر ہوں۔ میری دوست شادی ہو کر بنگلور گئی ہے، جب آئے گی تو لائے گی ضرور اسی لئے میں اس کی جلد واپسی کے لئے دعاگو ہوں۔
اے اللہ میری دوست کو جلد سے جلد تحفوں کے ساتھ بھیج دے۔۔۔’’ سب کہیں آمین‘‘